1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اولمپکس سے قبل، برطانیہ میں بہتر رویے کی ترغیب

19 اگست 2010

سن 2008 میں بیجنگ اولمپک کے موقع پر چینی قوم کوغیر ملکی مہمانوں سے اچھے سلوک اور غیرملکیوں کے سامنے چین کی ایک اچھی تصویر پیش کرنے کے لئے ایک مہم کا آغاز کیا گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/Ord3
تصویر: AP

اس مہم میں چینیوں کو کھلے عام تھوکنے اور بلند آواز میں گلا صاف نہ کرنے سمیت بہت سے سماجی ومعاشرتی رویے شامل تھے۔

ایسی ہی صورتحال برطانیہ میں سن 2012ء میں منعقد ہونے والے اولمپک گیمز سے قبل نظر آرہی ہے، جو کہ ایک حیران کن بات ہے کیونکہ برطانیہ بظاہرعالم میں تہذیب، رہن سہن اورانصاف کا محور تصّور کیا جاتا ہے مگر' قومی مہم برائے شائستگی' کے صدر پیٹر فُٹ کے مطابق اب یہ رویے بلکل بدل چکے ہیں، فُٹ کا کہنا ہے'اگر ہم اولمپک کھیلوں میں آنے والے غیر ملکیوں پر اپنے ملک کا اچھا تاثر ڈالنا چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنے برتاؤ کو تبدیل کرنا پڑے گا'۔

Olympia 2008 Chinesisches Mädchen
چین میں بھی اولمپک کے موقع پر بہتر رویے کے لئے اقدامات کئے گئے تھےتصویر: AP

فُٹ کا مزید کہنا تھا: ’’ہمارا برتاؤ پہلے کے مقابلے میں بہت خراب ہوچکا ہے پہلے ہم بس میں سفر کرنے کے لئے قطار میں کھڑے ہوتے تھے، اب ایسا نہیں ہے، اب ہم کوڑاکرکٹ زمین پر پھینکنے سے گریز نہیں کرتے اور دوکانوں پرسیلز گرلز اپنی باتوں میں مصروف ہوتی ہیں اور کوئی مدد کرنے والا نہں ہوتا'۔

یہ سب شاید اتنا ضروری خیال نہیں کیا جاتا اگر لندن میں اب سے دو سال بعد اولمپک کھیل کا انعقاد نہ ہوتا۔ رواں سال مارچ میں ایک ہوٹلنگ کے ادارے ’’جیوریز‘‘ کی طرف سے کروائے گئے سروے میں لندن کو پرطانیہ کا 'غیرشائستہ ترین' شہر قرار دیا گیا۔

اولمپک کھیلوں کے دوران لندن میں تقریبا ایک ملین غیرملکی متوقع ہیں اور اسی لیے فُٹ اور ان کے ساتھیوں نے اس مہم کا آغاز کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ فُٹ کا کہنا ہے 'ہم اپنی مہم کا آغاز اس لیے اس وقت کر رہے ہیں تاکہ لندن میں تمام غیرملکی مہمانوں کی مناسب عزت افزائی ہوسکے'۔

ابھی اس گروپ میں صرف نو سو ممبران ہیں مگر فُٹ اپنی اس مہم کو ریڈیو اور ٹیلی وژن کے ذریعے بھی لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔

BdT Chinesischer Fußballfan Olympia
سن 2008ء میں چین نے اولمپک مقابلوں کی میزبانی کی تھیتصویر: AP

'قومی مہم برائے شائستگی' اچھے برتاؤ پر لوگوں کو سرٹیفیکیٹ دیتی رہتی ہے۔ جیسے وہ بس ڈرائیور جو گانا گاتا ہو اور سفر کرنے والوں کو ٹافیاں دیتا ہو یہ پھر پوسٹ آفس کا کلرک جو کافی مددگار ثابت ہوا ہو۔ اسی طرح وہ ریسپشنیسٹ جو انتظار کرنے والے مہمانوں کو چائے پلانے کا سوچے۔ یہ سرٹیفیکیٹ پیٹر فُٹ خود ایسے شائستہ لوگوں کو دیتے ہیں۔

فُٹ کا پیغام بہت سادہ سا ہے کہ مسکرائیں اور،شکریہ ادا کریں تاکہ جب غیرملکی مہمان جہاز سے اتریں تو ان کا پُرتپاک استقبال ہو، چاہے وہ ٹیکسی میں سفر کر رہے ہوں یاخریداری کررہے ہوں یا پھر کسی ریسٹورانٹ میں کھانا کھارہے ہوں۔

برطانیہ کی ایک مشہور سیاحتی ایجینسی ویزٹ بریٹن (Visit Britain) کا بھی اولمپک کھیلوں میں آنے والے غیرملکی مہمانوں کا پُر تپاک استقبال کرنے کا ارادہ ہےاور انہوں نے اس موقع پرکسی بھی قسم کی غلطی سے بچنے کے لیے اپنے رہنما اصولوں کی ایک فہرست تیار کی ہے جیسے کہ کبھی کسی کینیڈین کو امریکی نہ کہا جائے، کسی بیلجیئن کے سامنے چٹکی نہ بجائی جائے اور کبھی بھی کسی عربی سے یہ نا پوچھا جائے کہ وہ انڈے کے ساتھ خنزیر کا گوشت لیں گے۔

ویزٹ بریٹن کی چیف ایگزیکٹو سینڈی ڈاوی کا کہنا ہے کہ غیر ملکی سیاح ہر سال برطانیہ میں سولہ ارب پاؤنڈ یعنی پچیس ارب امریکی ڈالر خرچ کرتے ہیں اس لیے ان کا پُرتپاک استقبا ل کرنا برطانوی معشیت کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔

جولائی میں اسی بات کا خیال کرتے ہوئے لندن کے ناظم بورس جونسن نے آٹھ ہزار رضاکار بھرتی کئے ہیں جو کہ غیرملکی مہمانوں کا ہوائی اڈے، ٹرین اسٹیشنوں اور سیاحتی مقامات پر استقبال کریں گے۔ ان رضاکاروں کی خاص بات یہ ہو گی کہ وہ لندن کا مسکراتا،خوش رنگ اور فخریہ چہرہ پیش کریں گے۔

رپورٹ : سمن جعفری

ادارت : عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں