اولمپکس سے قبل برازیل کا سیاسی بحران، توقعات مبہم
26 اپریل 2016جب ریو ڈی جنیرو شہر نے سن 2016 کے گرمائی اولمپکس کی بولی اپنے نام کی تھی، تو اس وقت کے برازیلی صدر لولا ڈی سلوا نے کہا تھا کہ اب ان کا ملک بین الاقوامی سطح پر اپنا وسیع کردار ادا کرنے کے سلسلے کا آغاز کر رہا ہے۔ اس وقت برازیل تیزی سے اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن تھا اور اسے مستقبل کا ایک اہم اقتصادی مرکز سمجھا جا رہا تھا، مگر اب صورت حال تبدیل ہو چکی ہے۔
اولمپکس کے آغاز میں اب صرف 100 روز باقی ہیں، مگر بین الاقوامی سطح پر برازیل کے حوالے سے خبریں ان مقابلوں سے متعلق نہیں بلکہ صدر دلما روسیف کے مواخذے، سیاسی بحران اور کرپشن کے الزامات کے حوالے سے آ رہی ہیں۔ ان حالات میں جنوبی امریکی براعظم میں منعقد ہونے والے ان پہلے اولمپک مقابلوں کی کامیابی گہنا گئی ہے۔
صدر روسیف کے مواخذے کی تحریک اور کرپشن کے الزامات کے طوفان کی وجہ سے ان بین الاقوامی مقابلوں کی تیاری کا معاملہ خاصا سست روی کا شکار ہو گیا ہے اور خدشات ہیں کہ یہ مقابلے ماضی کی طرح بھرپور اور شان دار ہو پائیں گے۔
ان مقابلوں کے حوالے سے معروف کتاب، ’پاورگیمز، پولیٹیکل ہسٹری آف دی اولمپکس‘ یا ’طاقت کے کھیل، اولمپکس کی سیاسی تاریخ‘ کے مصنف جولیس بوئےکوف کا کہنا ہے، ’’سیاسی طوفان اور اس پر اقتصادی بدحالی کا مطلب ہے کہ اولمپکس پر توجہ نہیں دی جا سکتی۔ اس کا نتیجہ ریو 2016 اولپمکس سے توجہ ہٹ جانے کی صورت میں نکلا ہے۔‘‘
اویگون میں قائم امریکی یونیورسٹی کے اس لیکچرر کے مطابق، ’’لوگ کی نظر میں ریو 2016 کی بھرپور کامیابی کی توقعات انتہائی کم ہیں۔‘‘
’بچتی اصلاحات کے کھیل‘
برازیل کو درپیش شدید مالی مشکلات کی وجہ سے ریو2016کو بچتی کھیلوں کے نام سے بھی پکارا جا رہا ہے، کیوں کہ حکومت اس اقتصادی بحران سے نکلنے کے لیے بچتی اصلاحات میں مصروف ہے۔
انٹرنیشل اولمپک کمیٹی (IOC) کے رابطہ کمیشن سربراہ نوال المتوکل کے مطابق، ’برازیل کی اقتصادی اور سیاسی فضا انتہائی پیچیدہ ہے۔‘‘
منتظمین کے مطابق ان عالمی مقابلوں کی تیاریوں کے لیے درکار 7.4 ارب برازیلیئن ریال کے بجٹ کے حصول میں شروع دن ہی سے سخت مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ مگر ایک ایسے موقع پر جب برازیل گزشتہ تین دہائیوں کی سخت ترین کساد بازاری کا شکار ہے اور اس کی اقتصادیات گزشتہ برس 3.8 فیصد سکڑی ہیں، منتظمین کو ان مقابلوں کے لیے درکار بجٹ میں سے 850 ملین کم کرنا پڑے۔
حکام کے مطابق حکومت لوگوں کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ ان مقابلوں کے انعقاد کے لیے بلینک چیک نہیں دیا جا سکتا اور یہ کہ حکومت اس سلسلے میں یہ بات یقینی بنا رہی ہے کہ صرف اسی صورت میں سرمایہ خرچ کیا جائے، جب واقعی ضرورت ہو۔