1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اوسلو حملے: ملزم کا متحرک نیٹ ورک کی موجودگی کا دعویٰ

26 جولائی 2011

ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں پیر کے دن ایک لاکھ سے زائد افراد نے گزشتہ جمعے کے روز ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے ہلاک شدگان کے غم میں تعزیتی ریلیوں میں شرکت کی۔ دوسری جانب حملہ آور کو عدالت میں پیش کر دیا گیا۔

https://p.dw.com/p/123Dx
حملہ آور کو پہلی بار عدالت میں پیش کیا گیاتصویر: picture alliance/dpa

ملزم آندرس بیہرنگ برییوک نے عدالت کے سامنے، جمعے کے روز اوسلو کے مرکز میں خوفناک بم دھماکے اور قریبی جزیرے پر ایک یوتھ کیمپ میں فائرنگ کر کے درجنوں افراد کو ہلاک کرنےکی ذمہ داری قبول کر لی۔ بند کمرے میں ہونے والی عدالتی کارروائی کے بعد جج نے میڈیا کو بتایا کہ ملزم نے اپنے اقبالی بیان میں اپنے ہم خیال ایک ’متحرک نیٹ ورک‘ کی موجودگی کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ اعترافی بیان کے بعد عدالت نے ملزم کو آٹھ ہفتوں کے ریمانڈ پر تفتیش کاروں کے حوالے کر دیا۔

Norwegen nach den Anschlägen in Oslo und Utøya Transport des Verdächtigen
اوسلو کے مرکز میں جمع ہزاروں افرادتصویر: dapd

پولیس نے ان حملوں میں ہلاک شدگان کی ’حتمی تعداد‘ 76 بتائی ہے، تاہم کہا ہے کہ اب بھی متعدد زخمیوں کی حالت نازک ہے۔ اس سے قبل مختلف پولیس افسران کی جانب سے یہ تعداد زیادہ بتائی جاتی رہی ہے۔ پولیس ترجمان کے مطابق حملوں کے بعد پھیلی افراتفری میں کئی ہلاک شدگان کو ایک سے زائد مرتبہ گن لیا گیا تھا۔ تاہم ترجمان نے کہا کہ حملوں کے بعد ابتدا میں میڈیا پر ہلاک شدگان کی تعداد خاصی کم بتائی جا رہی تھی۔

دوسری جانب اوسلو کے مرکز میں ایک لاکھ سے زائد افراد سوگواری اور تعزیتی تقریبات میں شریک ہوئے۔ ان لوگوں کی طرف سے ہلاک شدگان کی یاد میں موم بتیاں روشن کی گئیں۔ ان سوگواران نے ہاتھوں میں پھول تھامے اوسلو کی گلیوں میں مارچ کیا۔

حملہ آور ملزم آندرس بیہرنگ برییوک کے والد نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے، ’اس سے بہتر تھا کہ میرا بیٹا دوسروں کی بجائے اپنی جان لے لیتا۔‘

ناروے کے وزیراعظم ژینس شٹولٹن برگ نے کہا ہے کہ اس واقعے کے بعد ناروے مستقل بنیادوں پر تبدیل ہو جائے گا۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان حملوں کے نتیجے میں ملکی جمہوری نظام اور روایتی ’کھلے پن‘ کو کبھی تبدیل نہیں ہونے دیا جائے گا۔

No FLASH Norwegen Anschlag Terror Gedenken Blumen Oslo
سوگواران نے ہلاک شدگان کی یادگار پر پھول چڑھائےتصویر: dapd

اوسلو کے مرکز میں جمع سوگواران سے مخاطب ہوتے ہوئے وزیراعظم شٹولٹن برگ نے کہا، ’شیطان ایک شخص کو قتل کر سکتا ہے، مگر افراد کو نہیں۔‘‘

دریں اثناء ناروے کی پولیس سکیورٹی سروس کی سربراہ Janne Kristiansen نے کہا ہے کہ رواں برس مارچ میں آندرس بیہرنگ ایک پولستانی ادارے کی طرف سے کاروباری طور پر فروخت کیے جانے والے کیمیکلز کی خریداری کی وجہ سے نظروں میں آ تو گیا تھا، تاہم یہ مقدار اتنی زیادہ نہیں تھی کہ اسے حراست میں لیا جاتا یا اس کا تعاقب جاری رکھا جاتا۔

ناروے کے فوجداری قانون کے تحت جرم ثابت ہو جانے پر بیہرنگ کو 21 برس قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے، تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ ناروے میں بیہرنگ کو سزائے موت دینے کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔ بیہرنگ کے لیے سزائے موت کے مطالبے کرنے والے افراد کے مطابق 21 برس قید کی سزا کا مطلب ہو گا کہ اسے ہر قتل کے بدلے صرف 84 روز قید میں رکھا جائے، جو کسی صورت درست فیصلہ نہیں ہو گا۔

رپورٹ: عاطف توقیر

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں