’اور نہیں‘، کروشیا کی ہمت بھی جواب دے گئی
18 ستمبر 2015اس طرح کروشیا مہاجرین کے سیلاب کا صرف تین روز ہی سامنا کر سکا ہے۔ مشرقِ وُسطیٰ، افریقہ اور ایشیا کے جنگ سے تباہ حال اور غریب ملکوں کے ہزارہا شہری ہنگری کی سرحدیں بند پا کر بدھ سولہ ستمبر سے کروشیا کے راستے یورپ پہنچنے کی کوششیں کرنے لگے تھے۔ کچھ کھیتوں کھلیانوں سے ہو کر گزرے اور کچھ پولیس کو غچہ دے کر آگے بڑھے۔ اڑتالیس گھنٹوں کے دوران ان کی تعداد تیرہ ہزار ریکارڈ کی گئی۔
اب زغرب حکومت نے کہا ہے کہ وہ اس دباؤ کو مزید برداشت نہیں کر سکتی اور انہیں آگے مغربی یورپ کی جانب بھیج دے گی۔ دارالحومت زغرب میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کروآٹ وزیر اعظم زوران میلانووِچ نے کہا:’’ہم مزید ان افراد کی رجسٹریشن اور انہیں رہائش فراہم کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہم انہیں خوراک، پانی اور طبی ا مداد دیں گے اور پھر یہ آگے بڑھ جائیں گے۔ ہمارے دل ہیں لیکن ہمارے پاس دماغ بھی ہیں۔ ہم مہاجرین کا ’گڑھ‘ نہیں بن سکتے۔‘‘
ترکِ وطن سے متعلق بین الاقوامی تنظیم آئی اور ایم کے مطابق اس سال کے آغاز سے لے کر اب تک تقریباً چار لاکھ چوہتر ہزار افراد پناہ اور بہتر زندگی کی کی تلاش میں بحیرہٴ روم عبور کرتے ہوئے یورپ کا رخ کر چکے ہیں۔ ان میں سے لاکھوں بلقان کے راستے مغربی یورپ کے امیر ملکوں بالخصوص جرمنی پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جرمن حکام رواں سال کے آخر تک ممکنہ طور پر دس لاکھ مہاجرین کی جرمنی آمد کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد میں آمد کے باعث اٹھائیس رکنی یورپی یونین کے اندر بھی اختلافات جنم لے رہے ہیں۔
کروشیا کی جانب سے ایک ہزار کے قریب مہاجرین کو ریل گاڑیوں کے ذریعے ہنگری کی سرحد کی جانب روانہ کر دیا گیا۔ اگرچہ ہنگری نے اپنی سرحدیں بند کر رکھی ہیں لیکن پھر بھی کروشیا سے جانے والے ان مہاجرین کو سرحد سے بسوں کے ذریعے آگے ہنگری کے رجسٹریشن سینٹرز میں روانہ کر دیا گیا۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کا کہنا ہے کہ سربیا کے ساتھ ملنے والی سرحد کے ساتھ ساتھ کروشیا کی سرزمین پر ہزاروں مہاجرین نے رات کھلے آسمان تلے اس حالت میں بسر کی کہ پولیس نے اُنہیں چاروں جانب سے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ دمشق سے آئی ہوئی ایک بتیس سالہ شامی خاتون حکمت نے، جو ننگے پاؤں تھی، بتایا کہ پہلے سمندر پر سفر اور پھر بلقان کے مختلف ملکوں کے لمبے سفر کے بعد وہ اور اُن کے ساتھ آنے والے لوگ تھکن سے نڈھال ہیں۔ حکمت کا کہنا تھا کہ اُس نے اپنے بیٹے کے ہمراہ اپنا سفر دو مہینے پہلے شروع کیا تھا۔
کروشیا کی جانب سے دروازے بند ہونے کے بعد اب مہاجرین بلقان ہی کے ایک اور چھوٹے سے ملک سلووینیا میں داخل ہونا شروع ہو گئے ہیں۔