1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اوباما اور امریکہ۔ مشرقی یورپ تعلقات

Filip Slavkovic / Adnan Ishaq20 دسمبر 2008

واشنگٹن میں انتقال اقتدار کے بعد مشرقی یورپی ممالک کے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں تبدیلی کی امید کی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/GKTq
امریکہ سے باہر اوباما سے امید کی جا رہی ہے کہ وہ خارجہ سیاست اور سلامتی کے شعبوں میں نئی پالیسیاں اپنائیں گے۔تصویر: AP

20 جنوری 2009 کو باراک اوباما امریکہ کے 44 ویں صدر کے طور پرحلف اٹھا رہے ہیں۔ امریکیوں کو ان سے توقع ہے کہ وہ موجودہ اقتصادی بحران کے خاتمے کی کوئی راہ تلاش کر لیں گے جبکہ امریکہ سے باہر اوباما سے امید کی جا رہی ہے کہ وہ خارجہ سیاست اور سلامتی کے شعبوں میں نئی پالیسیاں اپنائیں گے۔ واشنگٹن میں انتقال اقتدار کے بعد مشرقی یورپی ممالک کے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں تبدیلی آئے گی یا نہیں یہ کہنا قبل ازوقت ہو گا۔

کچھ تبدیلیاں ضرور ہوں گی: روسی وزیراعظم ولادیمیر پوتین نے دسمبر کے اوائل میں کہا تھا کہ جب بھی کسی ملک کی حکومت تبدیل ہوتی ہے، اور خاص طور پر جب امریکہ میں ایسا ہو رہا ہو، توعموما کچھ تبدیلیاں ضرور رونما ہوتی ہیں۔ روس کواس بات کی بڑی توقع ہے کہ امریکہ میں آنے والی اس سیاسی تبدیلی کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔

Sicherheitskonferenz in München - Wladimir Putin
روسی وزیراعظم کا کہنا ہے کہ جب حکومت تبدیل ہوتی ہے تو تب پالیسیاں بھی بدلتی ہیں۔تصویر: AP

دوسری جانب روسی صدر دیمتری میدویدیف کو باراک اوباما سے امید ہے کہ وہ ماسکو حکومت کے مطالبے پرغورکرتے ہوئے پولینڈ اورچیک ری پبلک میں امریکی دفاعی راکٹ نظام کی تنصیب کے مجوزہ منصوبے کو منسوخ کر دیں گے۔ واشنگٹن میں مشرقی یورپی امور کے ایک ماہر وکٹر یاکووچ نے اس حوالے سے آئندہ امریکی حکومت سے زیادہ توقعات وابستہ کرنے سے خبردار کیا ہے۔ ان کے مطابق: ’’یہ بات میرے لئے تشویش کا باعث ہے کہ روس، نیٹو اور یورپی یونین میں توسیع کو جمہوریت کے فروغ اورعالمی استحکام کے تناظر میں نہیں دیکھ رہا۔ روس کی طرف سے جارجیا پرحملہ یہی اشارے دے رہا ہے۔ تاہم یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ روس اس پالیسی کو جاری رکھے گا یا نہیں۔‘‘

انقلابی تبدیلیوں کی امیدیں: ساتھ ہی وکٹر یاکووچ نے زور دے کر کہا کہ باراک اوباما امریکہ کے پہلے سیاہ فام صدر ہوں گے، وہ غالبا کافی بڑی بڑی تبدیلیاں لانے کی کوشش بھی کریں گے، تاہم اُن سے مشرقی یورپ میں واشنگٹن کے مجوزہ لیکن متنازعہ راکٹ نظام کے حوالے سے بہت بڑی یا انقلابی تبدیلیوں کی امیدیں وابستہ نہیں کی جانا چاہیئں۔

Sicherheitsberater James Jones
اوباما حکومت میں جن شخصیات کے فیصلے واشنگٹن کی مشرقی یورپ سے متعلق سیاست کا تعین کریں گے، اُن میں سے ایک جیمز جانز بھی ہیں۔تصویر: AP

اوباما حکومت میں جو شخصیات مرکزی کردار ادا کریں گی، اور جن کے فیصلے واشنگٹن کی مشرقی یورپ سے متعلق سیاست کا تعین کریں گے، اُن میں سے ایک مستقبل میں مشیر برائے سلامتی امورکے فرائض انجام دینے والے James Jones ہوں گے جو جنوب مشرقی اورمشرقی یورپی امور کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ دوسری جانب بلغراد میں ذرائع ابلاغ ابھی سے مستقبل کی امریکی وزیرخارجہ ہلری کلنٹن پر، اُن کی طرف سے، ماضی میں سربیا پرنیٹو طیاروں کی بمباری کی حمایت کئے جانے کے باعث تنقید کررہے ہیں، حالانکہ یہ بمباری دس سال قبل کوسوو کی جنگ کے دوران کی گئی تھی۔

بوسینا کی جنگ کے دوران جو بائیڈن نے بھی قیام امن کی بڑی کوششیں کی تھیں۔ اسی وجہ سے اب اُن کے امریکی نائب صدر بن جانے کو بلقان کے خطے میں مثبت انداز میں دیکھا جارہا ہے۔

وکٹریاکووچ کے خیال میں نئی امریکی حکومت جنوب مشرقی اور مشرقی یورپ کے سبھی ممالک پر زور دے گی کہ وہ اپنے باہمی تعلقات کو بہتربناتے ہوئے بتدریج معمول پر لائیں۔ اس لئے کہ اس وقت خطے میں کئی ریاستیں دو طرفہ بنیادوں پر کشیدگی کا شکار ہیں۔