اوبامانے امریکی صدارت کا عہدہ سنبھال لیا
20 جنوری 2009اس تناظر میں امریکی عوام تو ایک طرف، پوری دُنیا ہی اوباما سے مختلف توقعات وابستہ کئے ہوئے ہے۔ اب جبکہ باراک اوباما کو امریکہ کا صدر بننے پر دُنیا بھر سے مبارکباد کے پیغامات موصول ہو رہے ہیں تو ان سے جڑی توقعات بھی سامنے آ رہی ہیں۔ اس حوالے سے جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے نئے امریکی صدر پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
"مجھے اس بات کا یقین ہے کہ وفاقی جمہوریہ جرمنی اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے درمیان گہری دوستی اور شراکت کی بنیاد پر ہم درپیش مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔"
روسی وزیر اعظم ولادی میر پیوٹن کا کہنا ہے کہ اوباما ایک سنجیدہ اور کھلے دل کے مالک دکھائی دیتے ہیں اور یہ یقنینی طور پر اچھی بات ہے۔
باراک اوباما نے ایران سے براہ راست مذاکرات کی بات بھی کی ہے۔ تاہم ایرانی ذرائع ابلاغ نے اوباما کی تقریب حلف برداری کو زیادہ تر نظر انداز ہی کیا ہے۔ تہران میں زیادہ تر ایرانی شہریوں نے اس بارے میں شک و شبے کا اظہار کیا کہ اوباما کے صدر بننے کے بعد امریکہ اور ان ایران کے تعلقات میں کوئی مثبت پیشرفت دیکھنے میں آ سکے گی۔
یوں تو سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی پالیسیوں کو تنقید کا سامنا رہا ہے۔ تاہم ان کی انتظامیہ کو چین کو بین الاقوامی سطح پر زیادہ تعمیری کردار ادا کرنے کی تحریک دینے کے لئے ضرور سراہا جاتا ہے جبکہ نئے امریکی صدر کے بارے میں چین نے کہا ہے کہ انہیں دونوں ملکوں کے درمیان مضبوط عسکری تعلقات کے لئے کام کرنا ہو گا۔ جرمن شہر بوخُم میں سرگرم چینی ماہر سیاسیات گُوسُوئے وُو کہتے ہیں:
"اس تناظر میں مجھے یقین ہے کہ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں اوباما اور ان کی اقتصادی ٹیم زبردست دباؤ ڈالیں گے اور بیجنگ حکومت کو چینی کرنسی کے لئے ایک لچکدار اور مارکیٹ سے مطابقت رکھنے والی شرح تبادلہ اختیار کرنے پر مجبور کریں گے۔"
سابق امریکی انتظامیہ نے بھارت کے ساتھ بھی تعلقات کو مزید بنایا ہے۔ اوباما ان تعلقات کو کہاں لے جاسکتے ہیں،اس کے بارے میں نئی دہلی میں امریکی علوم کے پروفیسر کرسٹوفر راج کہتے ہیں:
"اب ہم اسٹریٹیجک پارٹنر شپ میں ماضی سے کہیں زیادہ ایک دوسرے کے قریب آ چکے ہیں اور میرا نہیں خیال کہ اوباما راتوں رات اس صورت حال میں کوئی بھی تبدیلی لے آئیں گے۔
پوپ بینیڈکٹ نے بھی اوباما کے نام پیغام میں دُنیا میں امن و تعاون کی فضا کو فروغ دینے پر زور دیا ہے۔