انڈونیشیا میں جنسی زیادتی معاملہ، اسکول کے خلاف دعویٰ خارج
10 اگست 2015اس عدالتی فیصلے سے ایسے ہی ایک اور مقدمے میں جیل میں قید دو اساتذہ کی رہائی کی راہ بھی ہموار ہو گئی ہے۔ اس مقدمے کی وجہ سے انڈونیشیا کے نظام انصاف پر بھی کئی طرح کے سوالات اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
انڈونیشی دارالحکومت جکارتہ میں امریکی سرپرستی میں قائم ایک اسکول کے اسٹاف کے خلاف ایک بچے کے باپ نے الزام عائد کر رکھا تھا کہ انہوں نے اسکول کے میدان میں اس کے بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کی۔ اس شخص نے گزشتہ برس اس اسکول پر 125 ملین ڈالر ہرجانے کا دعویٰ کیا تھا۔
یہ عدالتی حکم نامہ ایسے موقع پر سامنے آیا ہے، جب رواں برس اپریل میں کنڈرگارٹن میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے ایک اور مقدمے میں دو اساتذہ جیل میں قید ہیں۔ ان میں سے ایک کینیڈا اور دوسرا انڈونیشیا کا شہری ہے۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے مقدمات انڈونیشیا کے نظامِ انصاف میں سقم کی نشان دہی کرتے ہیں۔
اسکول کا دفاع کرنے والے وکیل ہیری پونٹو کے بقول پیر کے روز سنائے گئے اس عدالتی فیصلے سے اس طرح کے دیگر الزامات کے تحت قائم مقدمات اور سنائی جانے والی سزاؤں پر بھی اثرات پڑ سکتے ہیں، ’’امید ہے کہ اس مقدمے کا مثبت اثرات ہمارے ان اساتذہ کے مقدمات پر بھی پڑیں گے، جن کے بارے میں ہم سمجھتے ہیں کہ وہ بے گناہ ہیں۔‘‘
جکارتہ میں قائم یہ اسکول ماضی میں انٹرنیشنل اسکول کہلاتا تھا، جہاں سفارت کار اور دیگر اشرافیہ اپنے بچوں کو بھیجتے تھے۔ اس اسکول سے متعلق مقدمہ سننے کے بعد پیر کے روز جج ہاس وندی نے پیر کے روز اپنے فیصلے میں کہا، ’’اس دعوے میں الزامات واضح نہیں اور شواہد ٹھوس نہیں جو کسی غلط کاری کا پتا دیتے ہوں، اس لیے یہ دعویٰ رد کیا جاتا ہے۔‘‘
جکارتہ میں مقیم غیر ملکی برادری نے اس عدالتی فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے انڈونیشیا کے عدالتی نظام پر عوام کا اعتماد بڑھے گا۔ یہ بات اہم ہے کہ انڈونیشیا میں عدالتی نظام کو ملک کے سب سے بداعتماد اور غیرشفاف اداروں میں سے ایک گردانا جاتا ہے۔