1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انڈونیشیا میں اقلیتی فرقے کے اراکین کو قتل کرنے والے افراد کو معمولی سزائیں

28 جولائی 2011

آج جمعرات کو انڈونیشیا کی ایک عدالت نے ایک مسلم اقلیتی فرقے کے اراکین کو تشدد کے ذریعے موت کے گھاٹ اتارنے والے مذہبی جنونیوں کو تین سے چھ ماہ قید کی سزا سنائی۔

https://p.dw.com/p/125RY
تصویر: AP

ایک شخص کا سر پتھر سے کچل کر اسے ہلاک کرنے والے 17 سالہ دانی بن مصرہ کو قتل خطا کے الزام میں تین ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔

فروری میں ایک ہزار سے زائد مسلمانوں کے مجمع کو اکسا کر حملہ کرنے والے ادریس بن مہدنی کو غیر قانونی چھرا رکھنے پر پانچ ماہ اور پندرہ دن جیل کی سزا سنائی گئی۔

بارہ افراد پر مقدمہ چلایا گیا تھا مگر کسی پر بھی قتل کی فرد جرم عائد نہیں کی گئی۔ انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ دنیا کے سب سے بڑے مسلم آبادی والے ملک میں انصاف کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے۔

مغربی جاوا کے علاقے سیکیوسک میں احمدیہ فرقے کے خلاف بلا اشتعال تشدد کی کارروائی انڈونیشیا میں حالیہ سالوں میں اس اقلیتی گروپ کے خلاف متعدد حملوں میں سب سے زیادہ ہولناک تھی۔

مرکزی دھارے کے مسلمانوں کے برعکس احمدی فرقے کے لوگ پیغمبر اسلام کو آخری نبی نہیں مانتے اور اسی وجہ سے انڈونیشیا اور پاکستان جیسے قدامت پسند مسلم معاشروں میں انہیں کافر اور توہین رسالت کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے۔

حملے کی بنائی گئی ایک خفیہ ویڈیو سے انڈونیشیا میں مذہبی تشدد دنیا کی نظروں کے سامنے آ گیا اور امریکہ، اٹلی اور بین الاقوامی انسانی حقوق گروپوں نے اس کی شدید مذمت کی۔

ہیومن رائٹس واچ کے ڈپٹی ڈائریکٹر برائے ایشیا فل رابرٹسن نے کہا، ‘‘جب سیکیوسک واقعے کی ویڈیو آن لائن پوسٹ کی گئی تو دنیا مجمع کے وحشیانہ سلوک کو دیکھ کر گم صم رہ گئی جس میں لوگ ان تینوں افراد کو ٹھڈے مار رہے تھے اور پھر انہیں ذبح کر دیا گیا۔ مگر ملزمان پر قتل اور دیگر سنگین جرائم کی فرد جرم عائد کرنے کی بجائے وکلائے استغاثہ نے ان پر مضحکہ خیز حد تک معمولی الزامات عائد کیے۔’’

فل رابرٹسن نے کہا کہ سیکیوسک کے مقدمے سے دنیا کو یہ خوفناک پیغام گیا ہے کہ انڈونیشیا میں انصاف کا نظام احمدیوں جیسے اقلیتی گروہوں پر حملوں کو زیادہ سنگین تصور نہیں کرے گا۔ یہ انڈونیشیا میں انصاف کے لیے افسوس ناک دن ہے۔

رپورٹ: حماد کیانی

ادارت: امجد علی