انڈونیشیا: ملک بھر میں جسم فروشی کے اڈے بند کرنے کا اعلان
24 فروری 2016دنیا میں تین ہزار برس پہلے بھی جسم فروشی کا کاروبار ہوتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ اس کو دنیا کا سب سے پرانا پیشہ قرار دیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں جسم فروشی آج تک جاری ہے لیکن انڈونیشیا میں اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوششیں جاری ہیں۔
انڈونیشیا کی حکومت کے مطابق سن دو ہزار انیس تک ملک بھر میں جسم فروشی کے تمام اڈے بند کر دیے جائیں گے۔ انڈونیشیا کی حکومت ایک عرصے سے جسم فروشی کے خلاف کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس سلسلے میں پہلے ہی 68 ریڈ لائٹ ایریاز بند کیے جا چکے ہیں۔ سماجی امور کے وزیر خفیفہ پروانسا کا کہنا تھا کہ آئندہ تین برسوں کے دوران جسم فروشی کے مزید ایک سو اڈے بند کیے جائیں گے۔
حکام کے مطابق غیرقانونی ہونے کے باوجود انڈونیشیا کے تمام بڑے شہروں میں جسم فروشی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خفیفہ پروانسا کا کہنا تھا کہ وہ اس سلسلے میں تمام مقامی حکومتوں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور مل کر کام کر رہے ہیں۔ ان اقدامات کے تحت آئندہ اتوار کو جاوا کے مشرق میں واقع ’کالی جوڈو‘ نامی ریڈ لائٹ ایریا بند کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام جسم فروش خواتین کو خطوط بھیجے جا چکے ہیں کہ اسے بند کیا جا رہا ہے۔ حکام کے طرف سے جسم فروش خواتین کے لیے مختلف قسم کے ٹریننگ پروگرام بھی پیش کیے جا رہے ہیں تاکہ وہ مختلف اقسام کے ہنر سیکھیں اور انہیں ملازمتیں فراہم کی جا سکیں۔
اعداد و شمار کے مطابق اس ریڈ لائٹ ایریا میں تقریباﹰ پانچ سو خواتین جسم فروشی کا کام کرتی ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق جاوا کے مغرب سے ہے۔ تاہم بندش کے اس حکومتی اعلان کے بعد کم ہی خواتین نے ٹریننگ پروگراموں اور مدد حاصل کرنے کے لیے حکومتی قائم کردہ ادارے سے رابطہ کیا ہے۔
حکومت کی طرف سے جسم فروش خواتین کے لیے خصوصی امدادی سینٹرز قائم کیے جا رہے ہیں، جہان ان کو تربیت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ابتدائی طور پر رہائش بھی فراہم کی جائے گی۔ حکام کے مطابق، ’’سابقہ جسم فروش خواتین کو ان کی ذہانت اور ان کی دلچسپی کی بنیاد پر تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ ان کی صحت کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ان کو نفسیاتی اور مذہبی بنیاد پر مدد فراہم کی جاتی ہے اور چھ ماہ بعد انہیں ان کے آبائی شہروں یا پھر دیگر مقامات پر بھیج دیاجاتا ہے۔‘‘
اس ملک میں جسم فروشی کے خلاف ابتدائی اقدامات انڈونیشیا کے دوسرے سب سے بڑا شہر سورا بایا کی خاتون میئر ٹرائی رسمهارنی نے شروع کیے تھے۔ انہوں نے سن 2010ء سے 2013ء کے درمیان 650 جسم فروش خواتین کو کھانا پکانے اور ہیئر ڈریسنگ کے کام کی تربیت فراہم کی تھی۔ اس کے علاوہ کچھ کو نقد رقم بھی دی گئی تھی تاکہ وہ کسی چھوٹے موٹے کاروبار کے ذریعے نئی زندگی شروع کر سکیں۔
دوسری جانب قحبہ خانوں کے قریب بسنے والے لوگوں کو ڈر ہے کہ چکلے بند ہونے کی صورت میں جسم فروشی کرنے والی خواتین ان کے محلوں میں رہنا شروع کر دیں گی اور یہ کام ہر محلے میں شروع ہو جائے گا۔