انوگا: مستقبل کا ذائقہ ایسا ہو گا
7 اکتوبر 2017خوراک کے دنیا کے اس سب سے بڑے میلے میں اس مرتبہ ایک سو سات ممالک کے ساڑھے سات ہزار کے قریب نمائش کنندگان شرکت کر رہے ہیں۔ اس دوران ہزاروں نئی اشیاء پیش کی جا رہی ہیں۔ ان میں سے کچھ دلیا سے بنے ہوئے ایسے بسکٹس ہیں، جن میں سمندری کائی بھی شامل ہے، چلغوزے سے تیار کردہ نوڈلز، اونٹنی کا دودھ جِنسِنگ نامی پودے کے ساتھ اور منٹ کے ذائقے کے ساتھ چپس ہیں۔
کھانے پینے کی صنعت سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے خیال میں ایسی مصنوعات جن کی تیاری میں پروٹین کو بنیاد بنایا گیا ہو، سب سے زیادہ توجہ کی حامل ہوں گی۔ ان کے مطابق اس شعبے میں صارفین کی دلچسپی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
انوگا کے منتظیمن کا کہنا ہے کہ ایک ’فری فروم‘ کے نام سے ایک شعبہ بھی ہے۔ مثال کے طور پر اس کیٹیگری میں گلوٹین، شوگر اور لیکٹوس شامل کیے بغیر تیار کی گئی اشیا رکھی گئی ہیں۔ اسی طرح ’سپر فوڈز‘ میں چیا سیڈز یعنی تخم بالنگا، ادرک، سبز چائے اور کچھ مخصوص پودوں سے حاصل کیے جانے والے عرق(ست) بھی مرغوب ہوتے جا رہے ہیں۔
جرمنی میں غذائی اشیاء کی نمائش کا انعقاد
کولون میں اشیائے خوراک کی سب سے بڑی عالمی نمائش
’ کولا ڈبل روٹی پر لگا کر نوش فرمائیے‘، انوگا فوڈ فیئر کے نئے انداز
انوگا میں پہلی مرتبہ گاجر اور چقندر سے بنی ہوئی قاشیں، نبتاتی غذا کھانے والوں کے لیے ٹونا فش کی نقل، وہسکی میں ڈوبے ہوئے کھیرے اور اکائی بیری سے تیارہ کردہ موسلی شامل ہے۔ جرمنی فوڈ انڈسٹری کے مطابق صارفین ایک متوازن غذا کی تلاش میں ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ ہر سال چالیس ہزار سے زائد اشیاء متعارف کرائی جاتی ہیں، جن میں سے صرف تیرہ ہزار ہی ایسی ہوتی ہیں، جو دو سال کے بعد بھی دستیاب ہوں گی۔
شائقین گیارہ اکتوبر تک نت نئے کھانوں اور مستقبل کے ذائقوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ امید ہے کہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد افراد اس میلے کو دیکھنے کے لیے آئیں گے۔