1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انسانی حقوق کا علمبردار ملک سويڈن آزمائش سے دوچار

عاصم سليم7 نومبر 2015

يورپی رياست سويڈن کو انسانی حقوق کے اعلیٰ معيارات کے حوالے سے ايک ’سپر پاور‘ تصور کيا جاتا رہا ہے تاہم مہاجرين کی بہت بڑی تعداد ميں آمد کے سبب يہ رياست اب ايک آزمائشی دور سے گزر رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1H1ar
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Nyholm

خبررساں ادارے اے ایف پی نے سويڈن کے وزير اعظم اسٹيفان لوفوَین کے حوالے سے بتایا ہے، ’’صورتحال اب مناسب نہيں۔ سويڈن اب پہلے کی طرح مزيد مہاجرين کو پناہ فراہم نہيں کر سکتا۔‘‘ لوفوَین نے يہ بيان اسی ہفتے ديا، گو کہ ماضی کے اپنے بيانات ميں وہ اپنے ملک پہنچنے والے پناہ گزينوں کی حد مقرر کرنے کو مسترد کرتے آئے تھے۔

اندازوں کے مطابق 2015ء اور 2016ء کے دوران سويڈن ميں قريب تین لاکھ ساٹھ ہزار مہاجرين کی آمد متوقع ہے۔ يہ امر اہم ہے کہ سويڈن کے ہر پانچ شہريوں ميں سے ايک بيرون ملک سے ہے۔

سويڈش وزير برائے مہاجرت مورگن يوہانسن نے بھی حکومتی موقف دہراتے ہوئے کہا کہ تمام مہاجرين کو رہائش کی فراہمی يقينی نہيں اور اگر لوگوں کے پاس جرمنی ميں رہائش کا بندوبست ہے، تو بہتر ہو گا کہ وہ وہاں چلے جائيں۔ مہاجرين کے موجودہ بحران کے سبب حکام کو پيش آنے والی دشواريوں کی نشاندہی اس سے بھی ہوتی ہے کہ ہجرت سے متعلق ملکی ايجنسی کو پچاس پناہ گزينوں کے ليے رہائش کا انتظام اپنے دفتر ہی کے احاطے ميں کرنا پڑا۔

اسٹاک ہوم حکومت کی کوشش ہے کہ وہاں موجود کچھ پناہ گزينوں کو ديگر يورپی ممالک منتقل کر ديا جائے۔ ستمبر ميں يورپی يونين کی جانب سے تقريباً ایک لاکھ ساٹھ ہزار مہاجرين کی منتقلی کے ايک منصوبے کو حتمی شکل دی گئی تھی تاہم اس پر عملدرآمد کافی سست رفتاری سے جاری ہے۔ سويڈن کی طرف سے يہ مطالبہ بھی کيا گيا ہے کہ يورپی کميشن اس کی مالی امداد کرے۔

سويڈن سن 1950 ہی سے مہاجرين کے ليے پناہ گاہ کی حيثيت رکھتا ہے۔ گزشتہ برس سويڈن کے قدامت پسند وزير اعظم فريڈرک رائنفيلڈ نے اپنے ملک کو انسانی حقوق کے لحاظ سے ايک سپر پاور قرار ديا تھا۔ اب اس کے ايک ہی برس بعد ان کی سياسی جماعت مہاجرين کے آمد کے سلسلے کو روکنے کی خواہاں ہے۔

سويڈش وزير برائے مہاجرت مورگن يوہانسن
سويڈش وزير برائے مہاجرت مورگن يوہانسنتصویر: Getty Images/AFP/J. Klamar

پچھلے قريب پچيس برس کے دوران سويڈن ميں فلاحی بجٹ ميں کٹوتيوں کے سبب ملکی نظام کو چيلنجز کا سامنا ہے۔ حاليہ دنوں ميں وہاں پہنچنے والے پناہ گزينوں کو سہوليات اور سامان کی عدم دستيابی کے سبب زمين پر سونا پڑ رہا ہے۔ ہسپتالوں، اسکولوں اور جيلوں کو مہاجرين کے ليے عارضی رہائش گاہوں ميں تبديل کر ديا گيا ہے۔

وزير اعظم اسٹيفان لوفوَین نے اکتوبر ميں اپوزيشن جماعتوں کے ساتھ مہاجرين کی حد مقرر کرنے کے حوالے سے بات چيت کی تھی تاہم طے شدہ اقدامات کا اطلاق آئندہ برس کے اواخر سے ہی ہو گا۔ دريں اثناء رائے عامہ کے جائزے نشاندہی کرتے ہيں کہ مہاجرين مخالف سويڈن ڈيموکريٹس کی مقبوليت بڑھ رہی ہے۔