انسانی حقوق کا عالمی دن اور تبت کا مسئلہ
10 دسمبر 2008دلائی لاما نے آج بدھ کے روز تائیوان میں انسانی حقوق کے حوالے سے منعقدہ ایک فورم کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ تبت میں انسانی حقوق کی صورتحال دگرگوں ہے اور چین، تبتی عوام کے خلاف ریاستی طاقت کا استعمال بند کرے۔
نوبل امن کے انعام یافتہ دلائی لاما نے، جو تائیوان کے شہر Kaosiung کی انتظامیہ کے اہتمام کردہ اس فورم میں خود شریک نہیں ہوسکے شرکاء کے نام اپنے پیغام میں چین پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ چین جو دنیا کے سرکردہ ممالک میں سے ایک ہے اور تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں سر فہرست بھی ہے، اب تک تبت میں انسانی حقوق کے حوالے سے صورتحال کو بہتر بنانے میں ناکام رہا ہے۔
انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ اگرچہ تبت میں ترقی اور معیشت کے حوالے سے صورتحال بہتر ہوئی ہے تاہم اب تک عوام کواظہار رائے کی آزادی نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تبتی ثقافت کو اپنی بقاء کے حوالے سے شدید دشواریوں کا سامنا ہے اور چین وہاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو رہا ہے۔
دلائی لاما نے کہا کہ چینی ریاست میں انسانی حقوق کے حوالے سے بہتری، جمہوریت اور قانون کی بالا دستی کی ضرورت ہے اور یہی وہ عوامل ہیں جو کسی بھی معاشرے کی بہتری میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں
دریں اثناء آج بدھ کے روز منائے جانے والےانسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر آزاد تبت گروپ کی جاری کردہ انسانی حقوق کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تبت میں ریاستی اہلکاروں کی جانب سے تشدد اور عقوبت کے سلسلے میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آ رہی بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چینی حکام کے زیر حراست تبتی باشندوں پر اس قدر تشدد کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی رہائی کے بعد بھی کئی طرح کی جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار رہتے ہیں اور مہنگےعلاج اورسہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے اکثر اسی حالت میں ان کی موت واقع ہو جاتی ہیں۔
آزاد تبت گروپ نے اپنی اس تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ چینی حکومت تبتی باشندوں پر تشدد کوآزادی اور خود مختاری کی جدوجہد کو دبانے کے لئے اپنا موثر ہتھیار سمجھتی ہے۔
اس تنظیم کا کہنا کہ گو کہ اگرچہ چینی حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ تشدد کے واقعات اکا دکا ہی دیکھنے میں آتے ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ چینی وزارت خارجہ کی جانب سے اس رپورٹ پر کوئی فوری ردعمل سامنے نہیں آیا۔
تبت میں اس سال کے آغازسے چین مخالف اور آزادی کے حق میں تحریک میں شدت آئی ہے بیجنگ حکومت اس کا الزام جلا وطن تبتی رہنما دلائی لاما پر عائد کر رہی ہے۔ جب کہ دلائی لاما چینی حکام کے ان الزمات سے انکار کرتے آ رہے ہیں کہ تبت اور آس پاس کے علاقوں میں پر تشدد مظاہروں اور احتجاجی تحریک کرنے میں ان کا ہاتھ تھا۔
کچھ روز قبل یورپی پارلیمان سے اپنے ایک خطاب میں دلائی لاما نے اس موقف کا اظہارکیا تھا کہ تبت میں انسانی حقوق کے حوالے سے چین کا ریکارڈ بہت خراب رہا ہے۔ انہوں نے چینی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا :’’ ہم آپ کے مخالف نہیں ہیں اور ہمیں آپ سے علیحدگی بھی نہیں چاہیے۔ ہم تبت کے لئے زیادہ خود مختاری چاہتے ہیں‘‘۔