بحيرہ ايجيئن ميں نيٹو کا بحری مشن شروع
11 فروری 2016نيٹو اپنے تين بحری جہاز فوری طور پر بحيرہ ايجيئن روانہ کر رہا ہے، جو وہاں نگرانی کا کام سر انجام ديں گے۔ نيٹو کے رکن ممالک کے وزرائے دفاع کی جانب سے مشن کی باقاعدہ منظوری کے بعد اس بارے ميں اعلان دفاعی اتحاد کے سيکرٹری جنرل ژينس سٹولٹنبرگ نے جمعرات گيارہ فروری کو بيلجيم کے دارالحکومت برسلز ميں کيا۔ يہ مشن نيٹو کے رکن ممالک ترکی، جرمنی اور يونان کی درخواست پر شروع کيا جا رہا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد يورپ کو آج کل مہاجرين کے بد ترين بحران کا سامنا ہے۔ 2015ء ميں مشرق وسطیٰ کے شورش زدہ ملکوں کے علاوہ پاکستان، افغانستان اور کئی شمالی افريقی ممالک سے تقريباً ايک ملين سے زائد پناہ گزين ترکی سے براستہ بحيرہ ايجيئن يونان پہنچے۔ سال رواں کے دوران جنوری ميں بھی ستر ہزار تارکين وطن بحيرہ ايجيئن کا سفر طے کرتے ہوئے يورپ پہنچے۔ بين الاقوامی ادارہ برائے مہاجرين کے مطابق اس دوران چار سو سے زائد مہاجرين ہلاک بھی ہوئے۔ شامی امن عمل تعطلی کا شکار ہے اور خدشہ ہے کہ اس سال بھی پناہ گزينوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہے گا۔
برسلز ميں مشن کی منظوری کا اعلان کرتے ہوئے نيٹو کے سیکٹری جنرل سٹولٹنبرگ نے کہا کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افريقہ ميں مسلح تنازعات کے سبب مہاجرين کا موجودہ بحران، اٹھائيس رکنی يورپی يونين کی سلامتی کے ليے ايک بڑا خطرہ ہے۔ ان کا مزيد کہنا تھا، ’’يہ مشن مہاجرين کی کشتياں روکنے اور انہيں واپس کرنے کے ليے نہيں بلکہ اس کا اصل مقصد نگرانی ہے تاکہ انسانی اسمگلنگ اور جرائم پيشہ نيٹ ورکس کا انسداد ممکن ہو سکے۔‘‘
يہ پيش رفت سرد جنگ کے دوران قائم ہونے والے دفاعی اتحاد نيٹو کے ليے انسانی بنيادوں پر سرگرميوں کا ايک بالکل ہی نيا سلسلہ ہے۔ عموماً نيٹو عسکری سرگرميوں پر توجہ ديتا آيا ہے۔
يورپی کميشن نے اس منصوبے کا خير مقدم کيا ہے تاہم کميشن کا کہنا ہے کہ وہ اس سلسلے ميں ايک اپنے بارڈر اور کوسٹ گارڈ سسٹم کے قيام کا متمنی ہے، جس کا مقصد بھی وہی ہے، جو نيٹو کے اس مشن کا ہے۔ کميشن کے سربراہ ژاں کلود ينُکر کے ترجمان مارگاريٹاس شيناس نے ايک نيوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’ہم اميد کرتے ہيں کہ بحيرہ ايجيئن ميں انسانی جانوں کے ضياع کا سلسلہ رک سکے گا۔‘‘