’انسانی اسمگلروں کو روکو ورنہ ڈيل بے کار ہو جائے گی‘
21 مارچ 2016يونانی وزير اعظم اليکسس سپراس نے کہا، ’’اس معاہدے پر عملدرآمد آسان کام نہيں اور ہميں اس کے ليے کافی کوششيں کرنا ہوں گی۔‘‘ سپراس نے يہ بات ايتھنز ميں يورپی يونين کے کمشنر برائے ہجرت ديميتری اوراموپولس کے ساتھ ملاقات کے موقع پر پير کے روز کہی۔ يونانی وزير اعظم نے يورپی اہلکار پر زور ديا کہ وہ انسانوں کے اسمگلروں کے خلاف کارروائی کے ليے انقرہ حکومت پر دباؤ ڈاليں۔ ان کا مزيد کہنا تھا، ’’بد قسمتی سے گزشتہ روز بھی کئی مہاجرين يونان پہنچے، تقريباً ڈيڑھ ہزار۔‘‘ ان کے بقول اگر يونانی جزائر پر پہنچنے والے مہاجرين کی تعداد ميں کمی نہيں آتی، تو جزائر کو پوری طرح خالی نہيں کرايا جا سکتا اور معاہدے پر مکمل عملدرآمد ممکن نہيں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق يونان ميں اب بھی تقريباً پچاس ہزار پناہ گزين پھنسے ہوئے ہيں جبکہ نئے تارکين وطن کی آمد کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اتوار سے معاہدے پر عملدرآمد شروع ہو چکا ہے تاہم پير کے دن تک مزيد سولہ سو مہاجرين يونانی جزائر پہنچے۔ کوسٹ گارڈز کے مطابق يونان پہنچنے کی کوششوں کے دوران اتوار کے دن چار مہاجرين ہلاک بھی ہوئے، جن ميں دو مرد و دو لڑکياں شامل تھے۔
دريں اثناء ترک صدر رجب طيب ايردوآن نے ترکی کے انسانی حقوق اور آزادی صحافت سے متعلق ريکارڈ پر يورپی تنقيد کا جواب ديتے ہوئے يورپی ممالک پر تنقيد کی اور کہا کہ وہ پناہ گزينوں کے حقوق کے تحفظ ميں ناکام رہے ہیں۔ دارالحکومت انقرہ ميں انہوں نے کہا کہ انہوں نے يورپی يونين کے ساتھ معاہدہ اس ليے کيا تاکہ يورپی سرحدوں پر شامی مہاجرين کے ساتھ برا سلوک جاری نہ رہے۔ ايردوآن نے شام ميں ’نو فلائی زون‘ اور محفوظ مقامات کی تعمير سے متعلق تجاويز پر عمل نہ کرنے کے سلسلے ميں بھی مغربی ممالک کو تنقيد کا نشانہ بنايا۔