1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’انسانيت ابھی زندہ ہے، مہاجرين فکر مند نہ ہوں‘

Hang-Shuen Lee / ترجمہ : عاصم سليم19 مارچ 2016

بلقان ممالک کی جانب سے سرحدوں کی بندش کے بعد شمالی يونان ميں اڈومينی کے مقام پر ہزارہا تارکين وطن پھنسے ہوئے ہيں۔ اس ہی مقام پر ايک يونانی جوڑا کئی مہاجرين کو پناہ دے کر انسانيت کی ايک مثال بنا ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/1IGHa
تصویر: DW/L. Scholtyssyk

ڈيسپينا ٹومبوليديس اپنے باورچی خانے ميں کام کر رہی ہيں۔ وہ کئی لوگوں کے ليے کھانا پکا رہی ہيں، يونانی سلاد، پيٹا نامی روٹی اور گوشت کے ساسيجز۔ وہ يہ کھانا صرف اپنے اور اپنے خاوند کے ليے نہيں بلکہ اپنے ديگر اٹھارہ مہمانوں کے ليے بھی بنا رہی ہيں۔ مہمانوں کا يہ گروپ در اصل بوڑھوں، بچوں، نوجوانوں اور عورتوں پر مشتمل پناہ گزينوں کا ايک گروپ ہے۔ مختلف قوميتوں کے حامل اور بالکل مختلف زبانيں بولنے والے يہ تمام افراد جب دسترخوان پر ايک ساتھ بيٹھتے ہيں، تو زيادہ بات چيت تو نہيں ہوتی ليکن انسانيت کا جذبہ ضرور نماياں ہوتا ہے۔ ڈيسپينا ٹومبوليديس اور ان کے خاوند آليساندرو يونانی شہری ہيں۔ وہ انتہائی دريا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دن ميں تين تين مرتبہ اپنے مہمان شامی پناہ گزينوں کے ليے با قاعدگی سے کھانا پکاتے ہيں۔

ٹومبوليديس خاندان کے مہمان ايسے شامی پناہ گزين ہيں، جو انتہائی ناقص حالات ميں اڈومينی کے مہاجر کيمپوں ميں وقت گزار رہے تھے۔ وہ بحيرہ روم کا خطرناک سفر طے کر کے تين ہفتے قبل يونان اور مقدونيہ کی سرحد پر پہنچے تھے۔ ليکن سرحدی پابنديوں کے سبب وہ آگے نہ بڑھ سکے اور انہيں سردی اور بارش کے درميان چھوٹے چھوٹے خيموں ميں وقت گزارنا پڑا۔ پھر کچھ روز قبل ان کی ملاقات ٹومبوليديس خاندان سے ہوئی، جنہوں نے ان کی حالت زار ديکھ کر ان کی مدد کرنے کا فيصلہ کيا۔

ڈی ڈبليو سے بات کرتے ہوئے ڈيسپينا ٹومبوليديس بتاتی ہيں، ’’ميں واقعی سمجھتی ہوں کہ ہم ان لوگوں ميں خوشياں بانٹ رہے ہيں۔ ميں خود بھی يہ خوشی محسوس کر سکتی ہوں۔‘‘ ان کے بقول پناہ گزينوں کے اس گروپ کے ارکان کو اٹھارہ اٹھارہ دن سے نہانے کا موقع نہيں ملا اور ان کی ہر چيز مٹی ميں لدی ہوئی تھی۔ انہوں نے مزيد بتايا، ’’ميں ستائيس مرتبہ کپڑے دھو چکی اور اور کام ابھی بھی باقی ہے۔‘‘

يونانی خاتون بتاتی ہيں کہ انہوں نے جب مہاجرين کی مدد کا فيصلہ کيا، تو چند کوششوں کے بعد ان کی ملاقات اس خاندان سے ہوئی، جو اٹھارہ افراد پر مشتمل تھا۔ وہ شروع ميں چھ، سات پناہ گزينوں کی مدد کرنا چاہتے تھے کيونکہ ان کا گھر چھوٹا ہے ليکن يہ خاندان ايک دوسرے سے جدا نہيں ہونا چاہتا تھا اور اسی ليے انہوں نے پورے کے پورے کنبے کو گھر دعوت دے ڈالی۔

ڈيسپينا ٹومبوليديس اور آليساندرو ٹومبوليديس
ڈيسپينا ٹومبوليديس اور آليساندرو ٹومبوليديستصویر: DW/L. Scholtyssyk

اس شامی خاندان ميں شامل ايک شخص عابد حيدر شام ميں جانوروں کے ڈاکٹر کے طور پر کام کيا کرتا تھا۔ کھانے کی ميز پر بيٹھ کر وہ کہتا ہے، ’’ميں اپنے بچپن ميں سانٹا کلاس کے بارے ميں سنا کرتا تھا اور پھر ايک دن ميری ملاقات حقيقی دنيا کے سانٹا کلاس سے ہو گئی۔‘‘ حيدر کے بقول وہ تصور بھی نہيں کر سکتا کہ ٹومبوليديس اہل خانہ ان کے ليے بلا معاوضہ کتنا کچھ کر رہا ہے۔

آليساندرو ٹومبوليديس کے مطابق ان لوگوں کو ہنستے کھيلتے ديکھنے اور انہيں بنيادی سہوليات فراہم کرنے سے انہيں مسرت حاصل ہوتی ہے۔ وہ نہيں جانتے کہ يہ صورتحال کب تک جاری رہے گی ليکن وہ اپنے مہمانوں سے کہہ چکے ہيں کہ وہ جب تک چاہيں ان کے ساتھ رہ سکتے ہيں۔ کچھ ہی دنوں ميں دو مکمل اجنبی خاندان کس طرح ايک ہو گئے، پتہ ہی نہيں چلا۔ واقعی انسانيت آج بھی زندہ ہے۔