1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی صدارتی انتخابات

3 نومبر 2008

امریکی صدارتی انتخابات پوری دنیا کی دلچسپی کا مرکز ہیں۔ صرف امریکی ہی نہیں بلکہ دوسرے ممالک میں بھی سروے رپورٹوں اور عوامی جائزوں کو پرکھا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کے نامہ نگار پیٹر فلپ کا تبصرہ:

https://p.dw.com/p/Fmpv
امریکی صدارتی امیدوار، باراک اوباما اور مککینتصویر: picture-alliance/dpa

کل منگل کے روز جب امریکی رائے دہندگان اپنے نئے صدر کا انتخاب کریں گے تو وہ اس بات سے شاید ہی متاثر ہوں گے کہ یورپ یا جرمنی میں اس بارے میں کیا سوچ پائی جاتی ہے۔ ہاں اگر انہوں نے ووٹ دیتے وقت غیر ملکوں کے بارے میں سوچا بھی، تو پھر سب سے پہلے ان میں عراق، افغانستان، ایران، اسرایئل اور فلسطین جیسے ملک ہی شامل ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس امریکہ کے صدارتی انتخاب میں یورپ سمیت پوری دنیا بہت دلچسپی لے رہی ہے جیسے اس کا مستقبل اس کے نتیجے پر منحصر ہو۔

یہ بات غلط بھی نہیں۔ علمگیریت اور حالیہ مالیاتی بحران نے ثابت کر دکھایا ہے کہ دنیا بھر کے ملک ایک دوسرے کے ساتھ کیسے نتھی ہیں۔ امریکہ کے اندر ہونے والی منفی تبدیلیوں کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوتے ہیں۔ چنانچہ یہ پوری دنیا کے مفاد میں ہے کہ امریکہ کے اندر سوجھ بوجھ، تحفظ اور توازن پر مبنی پالیسیاں استوار کی جائیں۔ ہر شعبے میں ۔ خواہ مالیاتی ہو، اقتصادی ہو،ماحولیاتی ہو، فوجی ہو یا طاقت کا مظاہرہ کرنے کا شعبہ ہو۔ مجودہ امریکی صدر نے ہر شعبے میں ناقص کارکردگی دکھائی۔ ان کے دور کے خاتمے پر دنیا کی حالت بہتر نہیں ہوئی بلکہ پہلے سے بھی بد تر ہو چکی ہے۔

بش کے دور میں سب سے پہلے تو امریکہ کی ساکھ کو بری طرح سے نقصان پہنچا۔ نہ صرف یورپ بلکہ پوری دنیا میں۔ بدقسمتی سے بش پر ہونے والی تنقید پوری امریکی قوم پر ہونے والی تنقید کا روپ دھار گئی۔ اس بات کا اطلاق خاص طور پر بہت سے عرب ملکوں اور ایران پر ہوتا ہے۔ جو اس وقت بش کے امریکہ کو ایک دشمن ملک کی نظر سے دیکھتے ہیں، جبکہ دل کے نہاں خانوں میں وہ پہلے کی طرح اب بھی امریکی طرز زندگی کو پسند کرتے ہیں۔ خود یورپی ملک بھی امریکہ میں ایک ایسا صدر چاہتے ہیں جس کے ساتھ وہ عالمی مسائل پر باہمی گفت و شنید سے کوئی حل تلاش کر سکیں۔ بش دور حکومت میں ایسا نہ ہو سکا۔

جارج ڈبلیو بش نے جوکیا اکیلے کیا۔ انہوں نے نہ تو اتحادی ملکوں کو اعتماد میں لیا، نہ ہی اقوام متحدہ کی پرواہ کی اور نہ ہی بین الاقوامی تقاضوں کا خیال رکھا۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک امریکہ میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ یورپ اور خاص طور پر اسلامی ملکوں کے باشندے باراک اوباما سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔