امریکی صدارتی انتخابات: کیا باراک اوباما جیت چکے ہیں؟
27 اکتوبر 2008امریکی اخباروں میں ایسی رپورٹس بھی شائع ہوئیں کہ باراک اوباما نے امریکی صدر کی حیثیت سے قوم سے اپنا خطاب تیِار کرلیا ہے۔ کیا وہ اور ان کی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی آئندہ ہفتے ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں فتح کو یقینی سمجھ رہے ہیں؟
زرائع ابلاغ ہوں یا رائے عامہ کے جائزے، سب کے مطابق باراک اوباما کو جان میک کین پر آٹھ سے دس فیصد برتری حاصل ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی ہر کوئی شک و شبہے کا شکار بھی ہے۔ کوئی ’اوکٹوبر سرپرائز‘ کی بات کرتا ہے، تو کوئی القاعدہ کے ممکنہ حملے کی نتیجے میں باراک اوباما کے دھڑام سے گر جانے کی، تو کوئی کہتا ہے سفید فام افراد جائزوں کی حد تک تو باراک اوباما کی حمایت کر رہے ہیں مگر جب ووٹ ڈالنے کا وقت آئے گا تو وہ سیاہ فام باراک اوباما کے بجائے جان میک کین کو ہی ووٹ دیں گے۔
دوسری جانب جان میک کین بضد ہیں کہ رائے عامہ کے جائزوں میں پیچھے ہونے کے باوجود وہ چار نومبر کے صدارتی انتخابات کے فاتح ہوں گے۔
’میں ایک امریکی ہوں اور میں لڑائی جاری رکھوں گا۔ آپ امید نہ ہاریں، ثابت قدم رہیں اور لڑتے رہیں‘۔ یہ الفاظ جان میک کین نے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئےکہے۔
آخری ہفتے میں جان میک کی جانب سے اوباما کو سوشلسٹ کہنے کے علاوہ ان کی ٹیکس پالیسیوں پر بھی نکتہ چینی کی جا رہی ہے۔
ایک اشتہار میں کہا گیا ہے کہ اوباما امریکی عوام سے کہہ رہے ہیں کہ زیادہ ٹیکس ادا کرنا حب الوطنی ہے اور یہ کہ ہم کو دولت کو تقسیم کرنا ہوگا۔
اس حولے سے انتخابی مہم کا ایک انتہائی اہم کردار رپبلکن پارٹی کا حامی جو نامی پلمبر بن چکا ہے۔ نائب صدر کے عہدے کے لیے رپبلکن پارٹی کی امیدوار سارہ پیلن اور میک کین جو کا نام لے کر اوباما کی اقتصادی پالیسیوں پر تنقید کررہے ہیں۔
مگر اتوار کے روز باراک اوباما جب کولوراڈو پہنچے تو وہاں انہوں نے ڈیڑھ لاکھ کے مجمعے سے خطاب کیا۔ ڈینور میں ایک لاکھ سے زائد افراد جمع تھے۔
مگر سوال یہی ہے کہ ایک راک اسٹار جیسی کشش اور شہرت رکھنے والے باراک اوباما کو کیا امریکی عوام چار نومبر کو اسی جوش و خروش سے ووٹ بھی دیں گے؟ اس کے لیے اب تھوڑا سا ہی انتظار کرنا ہے۔