1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی شپ کے درجنوں مسلح یورپی سیلرز کو بھارت میں سزائے قید

مقبول ملک11 جنوری 2016

ایک بھارتی عدالت نے کئی برطانوی، ایسٹونین اور یوکرائنی شہریوں سمیت پینتیس ملکی اور غیرملکی سیلرز کو پانچ پانچ سال قید کی سزا سنا دی ہے، جن پر مسلح حالت میں غیر قانونی طور پر بھارتی سمندری حدود میں داخلے کا الزام تھا۔

https://p.dw.com/p/1HbRw
Indien Seaman Guard Ohio
بھارتی ساحلی محافظوں نے Seaman Guard Ohio نامی بحری جہاز کو 2013ء میں اپنے قبضے میں لے لیا تھاتصویر: Getty Images/AFP

بھارت کے جنوبی شہر چنئی سے پیر گیارہ جنوری کو موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق یہ سیلرز قزاقی کے انسداد کے لیے استعمال ہونے والی ایک ایسی امریکی کشتی پرسوار تھے، جو 2013ء میں بھارتی سمندری حدود میں داخل ہو گئی تھی۔ یہ سیلرز، جو بحری سپاہیوں کے طور پر فرائض انجام دے رہے تھے، اس حالت میں بھارتی حدود میں داخل ہوئے تھے کہ وہ اس امریکی کشتی پر مسلح حالت میں موجود تھے۔

ان غیر ملکیوں کو گرفتار کر کے ان کے خلاف بھارتی سمندری حددو میں غیر قانونی طور پر اور مسلح حالت میں داخلے کے باقاعدہ الزامات عائد کر دیے گئے تھے۔ آج پیر گیارہ جنوری کو اس مقدمے میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے جنوبی بھارتی ریاست تامل ناڈو کی ایک عدالت نے انہیں پانچ پانچ سال قید کی سزائیں سنا دیں۔

اس مقدمے میں ریاستی دفتر استغاثہ کی نمائندگی کرنے والے ایس چندر شیکھر نے اے ایف پی کو بتایا، ’’فیصلے کے وقت قزاقوں کے خلاف سرگرم اس امریکی بحری جہاز کے عملے کے تمام 35 ارکان عدالت میں موجود تھے، جنہیں پانچ پانچ سال قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔‘‘

وکیل استغاثہ ایس چندر شیکھر نے کہا، ’’امریکی ملکیت میں کام کرنے والی اس کشتی کے عملے کے تمام سزا یافتہ ارکان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اگلے 30 دنوں کے اندر اندر مدراس ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر سکتے ہیں۔‘‘

اس کشتی کو بھارتی کوسٹ گارڈز نے اکتوبر 2013ء میں ریاست تامل ناڈو میں ’ٹُوٹیکورین‘ کے ساحل کے پاس بھارتی پانیوں سے اپنی حراست میں لیا تھا اور یہ تمام افراد بھارتی سمندری حدود میں اپنے پاس ہتھیار رکھنے سے متعلق کوئی بھی سرکاری اجازت نامے پیش کرنے میں ناکام رہے تھے۔

35 گرفتار شدگان میں سے چھ برطانوی شہری تھے، تین یوکرائن کے باشندے اور 14 بالٹک کی جمہوریہ ایسٹونیا کے شہری جبکہ باقی ماندہ 12 کا تعلق بھارت ہی سے تھا مگر ان میں سے کسی کے پاس بھی بھارتی سمندری حدود میں اپنے پاس ہتھیار رکھنے کا باقاعدہ اجازت نامہ نہیں تھا۔

Piraterie in Südostasien
ایک امریکی کمپنی کی ملکیت یہ جہاز بحری قزاقوں کے خلاف کارروائیوں میں حصہ لے رہا تھاتصویر: Risk Intelligence/Karsten von Hoesslin

ان ملزمان میں سے دو کے سوا باقی سب کو 2014ء میں اس شرط پر ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا کہ وہ تامل ناڈو کے دارالحکومت چنئی سے باہر نہیں جائیں گے۔ اس کے برعکس دو ملزمان مسلسل جیل ہی میں رہے تھے اور عدالت نے ان کی ضمانت منظور نہیں کی تھی۔ ان میں سے ایک اس جہاز کا کپتان تھا، جس کا تعلق یوکرائن سے ہے اور دوسرا ایک برطانوی شہری، جو اس شپ کا سیکنڈ آفیسر تھا۔

اس بحری جہاز کا نام Seaman Guard Ohio ہے اور یہ بحری سلامتی کے شعبے میں کام کرنے والی ایک ایسی امریکی کمپنی کی ملکیت ہے، جس کا نام AdvanFront ہے۔ اس کمپنی نے اپنے ملازمین کے خلاف عائد کردہ الزامات کی ایک بار پھر نفی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے گرفتار کیے گئے کارکنوں کے پاس جتنے بھی ہتھیار تھے، وہ سب قانونی طور پر خریدے گئے تھے اور ان سے متعلق تمام دستاویزات بھی مکمل تھیں۔

اے ایف پی نے لکھا ہے کہ آج چنئی کی عدالت کی طرف سے جن ملزمان کو سزائیں سنائی گئی ہیں، ان میں شامل چھ برطانوی شہریوں کے بارے میں نئی دہلی میں برطانوی ہائی کمیشن نے کہا ہے کہ وہ ان برطانوی باشندوں کو آئندہ بھی قانونی امداد فراہم کرتا رہے گا۔ تاہم ساتھ ہی برطانوی ہائی کمیشن کی طرف سے یہ بھی واضح طور پر کہہ دیا گیا، ’’ہم کسی دوسرے ملک کے نظام عدل میں کوئی مداخلت نہیں کر سکتے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں