1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی خلاباز ریکارڈ مدت کے بعد زمین پر پہنچ گیا

2 مارچ 2016

امریکی خلائی ادارے ناسا کا ایک خلاباز قریب ایک برس تک خلا میں رہنے کے بعد واپس زمین پر پہنچ گیا ہے۔ اسکاٹ کیلی ایک روسی خلاباز کے ساتھ قزاقستان میں واقع روسی خلائی مرکز واپس پہنچے۔

https://p.dw.com/p/1I5gX
تصویر: Reuters/K. Kudryavtsev

اسکاٹ کیلی گزشتہ برس مارچ میں زمین کے مدار میں گردش کرتے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پہنچے تھے۔ کیلی خلا میں طویل ترین وقت گزارنے والے امریکی خلاباز ہیں اور ان کا یہ مشن دراصل مریخ تک انسان بردار خلائی مشن بھیجنے کے لیے ناسا کی تیاریوں کا حصہ ہے۔ اسکاٹ کیلی کے ساتھ روسی خلاباز میخائل کورنینکو نے بھی 340 دن بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر گزارے۔

کیلی نے پانچ برس قبل بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر پانچ ماہ گزارے تھے۔ زمین پر واپس پہنچنے پر کیلی بالکل ٹھیک ٹھاک دکھائی دے رہے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ انہیں گزشتہ تجربے سے کچھ خاص مختلف محسوس نہیں ہو رہا۔

کیلی اور کورنینکو نے زمین کے مدار میں گردش کرتے ہوئے مجموعی طور پر 144 ملین میل کا سفر طے کیا۔ اس دوران انہوں نے زمین کے گرد 5440 چکر لگائے اور مجموعی طور پر 10880 مرتبہ سورج نکلنے اور غروب ہونے کے نظارے کیے۔

زمین پر واپسی کے بعد خلابازوں کو تفصیلی طبی جانچوں سے گزرنا ہو گا۔ ان طبی جائزوں کا مقصد دراصل یہ جاننا ہو گا کہ اتنے طویل عرصے تک بغیر کشش ثقل کے خلا میں موجود رہنے سے انسانی جسم کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اسکاٹ کیلی کے ساتھ روسی خلاباز میخائل کورنینکو نے بھی 340 دن بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر گزارے
اسکاٹ کیلی کے ساتھ روسی خلاباز میخائل کورنینکو نے بھی 340 دن بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر گزارےتصویر: Reuters/NASA

کیلی کی طرف دو ہفتے قبل ہی اپنے ایک ٹوئیٹ میں کہا گیا تھا، ’’ایک برس اب اُس سے کافی طویل لگتا ہے جتنا میں نے سوچا تھا۔‘‘ کیلی ایک برس سے کچھ کم یعنی 340 دن خلا میں رہے۔ مگر ناسا کے کسی خلاباز کے لیے یہ ریکارڈ مدت ہے۔ کیلی سے قبل سب سے طویل عرصے تک خلا میں رہنے والی امریکی خلاباز نے ان سے ایک سو پچیس دن کم خلا میں گزارے تھے۔ تاہم خلا میں طویل ترین وقت گزارنے کا ریکارڈ روس کے پاس ہے جب ایک روسی ڈاکٹر نے 1990ء کی دہائی میں بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر 438 دن گزارے تھے۔

امریکی خلائی تحقیقی ادارہ ناسا 2030ء میں ایک انسان بردار مشن ہمارے نظام شمسی کے سیارے مریخ پر بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ مریخ کی طرف جانے والے خلابازوں کے لیے ریڈی ایشن سب سے بڑا چیلنج ہو گی۔ چونکہ مریخ تک جانے اور واپسی سفر کے لیے کم از کم ڈھائی برس کا وقت درکار ہو گا اس لیے اتنے طویل سفر کے دوران ان خلابازوں کی جسمانی حالت اور ذہنی کیفیات بھی مشکلات کا باعث بن سکتی ہیں۔ ناسا کے ایڈمنسٹریٹر چارلس بولڈن کی طرف سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ کیلی نے ’’مریخ پر انسانی قدم پہنچانے کے لیے ہماری بہت زیادہ مدد کی ہے۔‘‘