امریکی خفیہ ایجنسیوں کے معاون ادارے کنٹرول سے باہر، واشنگٹن پوسٹ
20 جولائی 2010کہتے ہیں کہ کوئی بھی چیز اگر حد سے تجاوز کر جائے تو اس کے منفی اثرات بھی ہو سکتےہیں۔ یہ مثال اخبار واشنگٹن پوسٹ کی اس رپورٹ پر بالکل صادق آتی ہے، جو اس نے امریکی خفیہ ایجنسیوں کے حوالے سے لکھی ہے۔ اس اخبار کے مطابق امریکہ میں خفیہ ایجنسیوں کی ایک متوازی دنیا بھی موجود ہے۔ یہ 2001ء کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد قائم کی گئی تھی۔ واشنگٹن پوسٹ کے بقول اس دوران خفیہ ایجنسیوں کی معاونت کرنے والے یہ ادارے اتنے زیادہ، وسیع اختیارات والے اور خفیہ ہو گئے ہیں کہ انہیں کنٹرول کرنا ممکن نہیں رہا۔ اس وجہ سے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ تمام ادارے امریکی سلامتی کے لئے موثر بھی ہیں یا نہیں؟
’ٹاپ سیکریٹ امریکہ‘ کے نام سے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی اس رپورٹ نے امریکہ کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں ہلچل مچا دی ہے۔ دو سال تک چھان بین کرنے کے بعد شائع کی گئی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ میں خفیہ ایجنسیوں کی متوازی دنیا میں 1271سے زائد سرکاری تنظیمیں اور1931 نجی ادارے کام کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد انسداد دہشت گردی اور ملکی سلامتی کی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہے۔ لیکن ان کی تعداد میں مسلسل اضافے کی وجہ سے ان پر کنٹرول رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
یہ رپورٹ مرتب کرنے والی دانا پریسٹ کہتی ہیں کہ انہیں یہ معلومات وزارت دفاع کے اہم عہدیداروں سے ملیں۔ ان عہدیداروں کے بقول وہ روزانہ خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے فراہم کی جانے والی تقریباً 50 ہزار سے زائد رپورٹوں کو بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ان کے بقول یہ طریقہ کار بہت وسیع اور مشکل ہو گیا ہے۔ ساتھ ہی ان معاون اداروں کا آپس میں کوئی تعلق بھی نہیں ہے۔ اسی وجہ سے ان کی نگرانی کرنے والوں کو معلوم ہی نہیں کہ کتنے لوگ ان کے لئے کام کر رہے ہیں، نہ ہی انہیں ان کاموں پر اٹھنے والے اخراجات کا صحیح اندازہ ہے۔ ایک دوسرے سے رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے اکثر کئی ادارے ایک ہی مشن پر کام کر رہے ہوتے ہیں۔
دانا نے اس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ تقریباً پچیس سرکاری تنظیمیں ایک دوسرے کو جانے بغیر دہشت گردوں کی مالی امداد کے واقعات کی چھان بین کر رہی ہیں۔11ستمبر2001 ء کے حملوں کے بعد امریکہ میں دہشت گردی کا خطرہ اتنا بڑھ گیا تھا کہ ٹیکسوں کی رقوم سلامتی کے نام پر بڑی آسانی سے فراہم کی جانے لگیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق گزشتہ برسوں کے دوران انتہائی خفیہ دستاویزات تک رسائی کے حامل افراد کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ اس وقت یہ تعداد ساڑھے آٹھ لاکھ کے قریب ہے۔
داناپریسٹ کہتی ہیں کہ سرکاری طور پر اس تعداد کے حوالے سے بھی کوئی شخص یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ انہوں نے امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کے ساتھ اپنے انٹرویو کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ جب وزیر دفاع رابرٹ گیٹس اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر لیون پینیٹا کے ساتھ انٹرویوز کئے گئے۔ گیٹس نے مثلاً یہ کہا کہ خود وہ بھی اس بات پر پریشان ہو جاتے ہیں کہ انہیں بھی اس طرح کی معلومات تک رسائی میں مشکلات پیش آتی ہیں۔
دانا پریسٹ کی رپورٹ کا ابھی صرف پہلا حصہ ہی شائع ہوا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ’ٹاپ سیکریٹ امریکہ‘ کے بقیہ دو حصوں کی اشاعت کے بعد یہ موضوع کیا رخ اختیار کرتا ہے۔ دانا کے بقول دہشت گردی کا موضوع امریکہ میں انتہائی اہم اور اس حد تک سیاسی ہو گیا ہے کہ اس پر کوئی سوال اٹھانا اب آسان نہیں ہے۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت : مقبول ملک