1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی جیل گوانتنامو کے قیدیوں کے لئے پرتگال کی پیشکش

13 دسمبر 2008

امریکہ کے نو منتخب صدر باراک اوبامہ نے گوانتنامو جیل کو بند کرنے کا اعلان اپنی مہم میں کرچکے ہیں۔ یورپی ملک پرتگال نے اِن قیدیوں کو اپنے ملک منتقل کرنے کی پیش کش کی ہے جس کو امریکی وزارت خارجہ استحسانی نگاہوں سے دیکھا۔

https://p.dw.com/p/GFEk
گوانتنامو جیل کا ایک قیدیتصویر: AP

یورپی ملک پرتگال کی جانب سے امریکی قید خانے گوانتنامو کے قیدیوں کو اپنے ملک منتقل کرنے کی پیشکش کو امریکی وزارت خارجہ سے پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ پرتگال نے تو دوسرے یورپی ملکوں سے بھی اپیل میں کہا ہے کہ وہ بھی اِن قیدیوں کی اپنے اپنے ملکوں میں منتقلی کے بارے میں سوچیں۔ گوانتنامو جیل کو حتمی طور پر بند کرنے کی جانب یہ ایک عملی کوشش سمجھی جا رہی ہے۔

پرتگال کی وزارت خارجہ نے یہ پیشکش ایک خط کے ذریعے کی ہے۔ پرتگال سے خط لکھنے والے وزیر خارجہ لوئیس آمادو ہیں۔ ماہرین کے خیال میں پرتگال کی پیشکش سے بیس جنوری سن دو ہزار نو کو حلف اٹھانے والے نو منتخب امریکی صدر باراک اوبامہ کے لئے آسان ہو گا کہ وہ اِس جیل کو مکمل طور پر بند کرنے کا حکم صادر کردیں۔

USA Flagge vor Guantanamo
گوانتنامو جیل کے خلاف ایک مظاہرہتصویر: AP

امریکی وزارت خارجہ کے قانونی مشیر جان بیلِن گر کے مطابق یہ ایک انتہائی اہمیت کی حامل پیشکش ہے۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کو انٹر ویو دیتے ہوئے جان بیلِن گر کا کہنا ہے کہ پہلی بار سوائے البانیہ کے کسی ملک نے گرانتنامو کے قیدیوں کو اپنے ملک میں رکھنے کا سوچا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے قانونی مشیر کے مطابق یہ اِس معاملے پر جمی برف میں پڑنے والا پہلا کریک ہے۔ اُن کا مزید کہنا ہے کہ یورپی ملکوں کو اِس جیل کو بند کرنے کی صرف آواز نہیں بلند کرنی چاہیئے بلکہ اِس کو بند کرنے کے لئےعملی مدد بھی فراہم کریں۔

پرتگال کے وزیر خارجہ کے خط کے مندرجات کے مطابق اب وقت آ گیا ہے کہ یورپی یونین آگے بڑھے اور ایسے اقدامات کرے کہ قیدیوں کی منتقلی کے بعد اِس قید خانے کو بند کیا جا سکے۔ پرتگال کے وزیر خارجہ کے خط میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ وہ کون سے قیدیوں کو اپنے ملک منتقل کرنے پر رضامند ہے ۔

USA Gefangenenlager Guantanamo Häftling
گوانتنامو جیل کے اندر ایک اور قیدیتصویر: AP

کیوبا کے قریب امریکی بحری اڈے میں واقع گوانتنامو جیل کا قیام جنوری سن دو ہزار دو میں آ یا تھا۔ اِس جیل میں اُن قیدیوں کو رکھنے کا فیصلہ کیا گیا جن کو امریکی صدر جورج ڈبلیو بُش کی دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔

اِس جیل پر تنقید کا آغاز کافی عرصے سے شروع ہے کیونکہ سینکڑوں افراد کو بغیر کسی الزام کے وہاں پابند رکھا گیا ہے۔ اِس جیل کے قائم رکھنے کے امریکی حکومتی فیصلے پر انسانی حقوق کی تنظیمیں مسلسل آواز بلند رکھے ہوئے ہیں۔

موجودہ امریکی صدر بُش نے بھی کہہ رکھا ہے کہ وہ اپنی مدت صدارت کے ختم ہونے سے قبل اِس جیل کو بند کردیں گے لیکن کئی قانونی پیچییگیاں اب راہ میں حائل ہو چکیں ہیں اور وہ شاید خواہش رکھتے ہوئے بھی ایسا نہ کر سکیں۔

Amnesty International fordert die Schließung von Guantanamo
ایمنسٹی انٹر نیشنل کے لوگ گوانتنامو قیدیوں کا لباس پہن کر احتجاج کرتے ہوئے۔تصویر: AP

دو سو پچاس میں پچاس ایسے ہیں جن کی رہائی کے پروانے جاری ہو چکیں ہیں مگر اُن کو رہا اِس لئے نہیں کیا جا رہا کہ جب وہ اپنے ملک پہنچیں گے تو اُن کو ایک بار پھر حکومتی جبر اور تشدد کا سامنا ہو گا۔ ایک تہائی سے زائد قیدی تو صرف یمن کے ہیں لیکن ابھی تک امریکی حکومت کو یمن کی جانب سے کوئی سکیورٹی یقین دہانی نہیں ملی ہے۔

جان بیلنگر کے علاوہ کچھ اور امریکی حکام یورپی ملکوں کا دورہ کر چکے ہیں کہ کسی طور اُنہیں راضی کیا جائے کہ وہ اِن قیدیوں کو اپنے ملکوں میں جگہ دیں سکیں۔

لیبیا سے دورہ ختم کرنے کے بعد امریکی وزیر خارجہ کا دورہ پرتگال امکاناً اِسی مقصد کا حامل ہو سکتا ہے اور تب ہی پرتگال کے وزیر خارجہ نے مدد کرنے کا اصولی فیصلہ کیا ہو گا جس کو اب اُنہوں نے خط لکھ کر عملی شکل دی ہے۔