امریکی انٹیلیجنس اہلکار ’وائٹ ہاؤس کو جلا دینا‘ چاہتی تھی
9 جون 2017امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے جمعہ نو جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اس وقت پچیس سالہ ملزمہ کا نام ریئلیٹی وِنر ہے اور وہ امریکی خفیہ ادارے نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) کی ایک سابقہ کنٹریکٹر اہلکار ہے۔
ٹرمپ کے روس سے رابطے: پانچ امریکی ادارے چھان بین میں مصروف
ٹرمپ نے صرف سابق ایف بی آئی سربراہ پر ہی دباؤ نہیں ڈالا تھا
کُشنر نے روس کے ساتھ خفیہ رابطہ لائن قائم کرنے کی تجویز دی، رپورٹ
ریئلیٹی وِنر (Reality Winner) پر الزام ہے کہ اس نے گزشتہ برس ہونے والے امریکی صدارتی الیکشن میں روس کی طرف سے مبینہ مداخلت سے متعلق ایک انتہائی خفیہ رپورٹ کی تفصیلات ایک صحافی کو مہیا کر دی تھیں۔ اس وقت وِنر کے خلاف ایک مقدمہ امریکا کی ایک وفاقی عدالت میں زیر سماعت ہے، جس کی کل جمعرات آٹھ جون کو ریاست جارجیا میں ہونے والی سماعت کے دوران ملزمہ نے اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کی صحت سے انکار کر دیا۔
امریکی نشریاتی ادارے اے بی سی نیوز کے مطابق اس سماعت کے دوران وِنر نے عدالت کو بتایا کہ اس پر عائد کیا گیا ’قومی دفاع سے متعلق معلومات کو کسی دوسرے تک پہنچانے یا دانستہ طور پر اپنے پاس روکے رکھنے‘ سے متعلق الزام غلط ہے اور اس نے ایسا کوئی کام نہیں کیا تھا۔
وِنر کو، جو ایک ماہر لسانیات کے طور پر امریکی فضائیہ کی ملازمہ بھی رہ چکی ہے، تین جون کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اس پر ایسے ایک سے زائد الزامات ہیں کہ اس نے نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے انٹیلیجنس اہلکاروں سے متعلق ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی تھی۔
یہ بات این ایس اے کے لیے اس لیے بھی تشویش کا باعث ہے کہ یہ امریکی انٹیلیجنس ایجنسی ابھی تک اس دھچکے کے اثرات سے نکلنے کی کوششیں کر رہی ہے، جو اسے اس ادارے کی عالمی سطح پر جاسوسی کی کارروائیوں سے متعلق 2013ء میں ایڈورڈ سنوڈن کی طرف سے کیے گئے انکشافات کی وجہ سے لگا تھا۔
ریئلیٹی وِنر کے بارے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ وہ کئی زبانیں جانتی ہے اور ریاست جارجیا کے دفتر استغاثہ کے مطابق وِنر کے گھر کی تلاشی کے دوران حکام کو وہاں سے مختلف زبانوں میں ہاتھ سے لکھے گئے ایسے کئی نوٹ ملے تھے، جن میں سے ایک میں لکھا تھا، ’’میں وائٹ ہاؤس کو جلا دینا چاہتی ہوں۔‘‘
ریئلیٹی وِنر کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ ملزمہ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے مطالعے سے پتہ چلا کہ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو سخت ناپسند کرتی ہے، اور ایک بار تو اس نے اپنی ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں ٹرمپ کو ’نارنجی رنگ کا فاشسٹ‘ بھی قرار دیا تھا۔
عدالت کو بتایا گیا کہ وِنر براہ راست این ایس اے کی ملازمہ نہیں تھی بلکہ وہ این ایس اے کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے Pluribus انٹرنیشنل کارپوریشن کی کارکن تھی۔ اس انٹیلیجنس ادارے کے دفاتر امریکی ریاست جارجیا کے شہر آؤگسٹا میں ہیں۔
ٹرمپ روس تعلقات: FBI کے سابق سربراہ تحقیقاتی افسر مقرر
ٹرمپ پر خفیہ معلومات روس کو فراہم کرنے کا الزام
اندر کی باتیں میڈیا تک نہ پہنچیں، ٹرمپ کی جیمز کومی کو تنبیہ
ریئلیٹی وِنر پاکستان، ایران اور افغانستان میں بولی جانے والی پشتو، فارسی اور دری جیسی متعدد زبانوں کی ماہر ہے اور امریکی دفتر استغاثہ کے مطابق وِنر کے گھر سے ملنے والے کئی نوٹ اس بارے میں بھی تھے کہ انٹرنیٹ کے ’ڈارک ویب‘ تک رسائی کیسے حاصل کی جا سکتی ہے۔ استغاثہ کو کافی زیادہ شبہ ہے کہ ملزمہ کے پاس ابھی تک کئی ایسے راز ہو سکتے ہیں، جو اس نے ایک انٹیلیجنس اہلکار کے طور پر اپنی سروس کے دوران چرائے ہوں۔
اے ایف پی کے مطابق ملزمہ کا اس بارے میں کوئی موقف ابھی تک سامنے نہیں آیا کہ اس نے یہ کیوں لکھا تھا کہ وہ وائٹ ہاؤس کو جلا دینا چاہتی ہے۔
اس مقدمے کی سماعت کے دوران ملزمہ کے وکیل کی طرف سے اس کی ضمانت کی درخواست بھی کی گئی تھی، جسے جج نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا، ’’یہ ایک انتہائی اہم مقدمہ ہے۔ استغاثہ کے مطابق ملزمہ کے خلاف چند شواہد ڈرا دینے والے ہیں۔ ملزمہ ضمانت کے بعد کہیں غائب بھی ہو سکتی ہے۔ اس لیے مقدمے کی سماعت مکمل ہونے تک وہ جیل میں ہی رہے گی۔‘‘
وِنر پر الزام ہے کہ اس نے ایک ٹاپ سیکرٹ انٹیلیجنس رپورٹ The Intercept نامی ایک نیوز ویب سائٹ کو مہیا کی تھی۔ اس رپورٹ میں اس بارے میں بہت سی تفصیلات موجود تھیں کہ کس طرح روسی ملٹری انٹیلیجنس کے ہیکروں نے کئی مرتبہ ایک امریکی کمپنی کے کمپیوٹر سسٹم کو ہیک کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ کمپنی ووٹروں کی رجسٹریشن کے سافٹ ویئر کی تجارت کرتی ہے۔ اس کے علاوہ انہی روسی ہیکرز نے کئی مقامی الیکشن اہلکاروں کے کمپیوٹر سسٹم ہیک کرنے کی کوششیں بھی کی تھیں۔