1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی اثرورسوخ میں تیزی سےکمی آرہی ہے،سی آئی اے کی رپورٹ

کشور مصطفٰی12 ستمبر 2008

حال ہی میں امریکی صدارتی امیدواروں اوباما اور مک کین نے نائن الیون کے حملوں کے متائثرین کی یاد میں نیو یارک میں منعقدہ تقریب میں حصہ لیا۔ دونوں دھشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/FH4t
تصویر: picture-alliance / dpa

ایسے وقت میں امریکی خفیہ سروس کی ایک تجزیاتی رپورٹ نے یہ انکشاف کیا ہے کہ بہت جلد دھشت گردی کے خلاف جنگ اپنی اہمیت کھو دی گی اور امریکی حکومت کو دیگر چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ یہ رپورٹ معروف امریکی روزنامہ واشنگٹن پوسٹ میں شایع ہوئی ہے۔

Us-Soldat in Tal Afar
تصویر: AP

باراک اوباما کو تو یہ معلوم ہے اور میک کین بھی جلد جان جائیں گے۔ دونوں صدارتی امیدواروں کو یہ پتہ ہونا چاہئے کہ اگلے سالوں سے لے کر تقریباٍ دو ہزار پچیس تک امریکہ میں کیا ہوگا۔ روزنامہ واشنگٹن پوسٹ میں چھپنے والی امریکی خفیہ ادارے کی تجزیاتی رپوٹ میں امریکہ کی خارجہ اور سلامتی کے حساس پہلووں کی طرف نشاندہی کی گئی ہے۔ امریکہ کا اثر و رسوخ اور اسکی طاقت میں مسلسل کمی واقع ہوگی۔ تیزی سے آگے آتے ہوئے ممالک چین اور بھارت سیاسی طور پر مستقبل کی عالمی طاقتیں ہونگی۔ ایسی صورتحال میں امریکہ دیگر ممالک کے مقابلے میں صرف اور صرف اپنی عسکری قوت سے اپنی برتری ثلبت کرنے کی کوشش کرے گا۔ تاہم اس کی اہمیت بھی مزید کم ہوتی جائے گی۔ کیونکہ اب کنونشنل وار یا روایتی جنگ کا دور گیا جس میں امریکہ اپنی قوت کا بھرپور مظاہرہ کر سکتا۔ واشنگٹن پوسٹ کے نیشنل سکیورٹی جرنلسٹ والٹر پنکیس نے سی آئی اے کی رپورٹ پڑھی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’’ مستقبل میں یہ دھشت گردی نہیں نظر آئی گی جن سے دنیاء کو اس وقت خطرات لاحق ہیں۔ تاہم اسلامی دنیاء میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی اہمیت برقرار رہے گی۔ وہاں کی ریاستوں میں ایسے گروپوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا جو اپنی اپنی حکومتوں پر اثر انداز ہونے کی مزید کوششیں کریں گے۔‘‘

صحافی پینکوس کا کہنا ہے کہ امریکی خفیہ ادارے کی رپوٹ کے مطابق آئندہ دو عشروں کے دوران امریکہ کو جن چیلنجز کا سامنا ہوگا وہ بالکل الگ شعبوں ہونگے، جو بش حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں تھے۔ دیگر عوامل کے علاوہ ان کا تعلق عالمگیریت کے منفی اثرات سے ہے۔

والٹر پینکوس کہتے کے مطابق ’’آمید یہی کی جا رہی ہے کہ اس وقت جو ممالک امیر ہیں وہ مزید امیر اور جو غریب ہیں وہ اور زیادہ غریب ہوتے جائیں گے۔ اور زمین کی بڑھتی ہوئی تپش کے اثرات کا بھی سامنا تمام ممالک کو سامنا ہوگا۔‘‘

پیشنگوئی کے مطابق قحط سالی کے سبب چھوٹے اور درمیانے سائز کی عوامی نقل مکانی میں اضافہ ہوگا، خام دھات اور پانی کی قلت بڑھے گی۔ یہ مسائل عالمی بحران کا باعث بن سکتے ہیں۔ جبکہ اقوام متحدہ اور عالمی بینک جیسے بین الاقوامی اداروں کا اثر رسوخ کم ہوتا جائے گا اور یہ Crisis Management میں کار آمد نہیں رہیں گے۔