امریکہ ، پاک اور افغان مذاکرات کامیاب رہے
27 فروری 2009امریکہ، پاکستان اورافغانستان اس بات پرمتفق ہو گئے ہیں کہ دہشت گردی، سرحدی علاقوں کی صورتحال کے بارے نئی امریکی حکمت عملی اورعسکریت پسندی کی روک تھام کے لئے آئندہ تینوں ممالک کے درمیان باقاعدگی سے مذاکرات ہونگے۔ اس کا فیصلہ واشنگٹن میں امریکہ، پاکستان اورافغانستان کے وزرائے خارجہ کے ایک اجلاس میں ہوا۔ اس موقع پر امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لئے نئی دفاعی حکمت عملی تیار کرنا ہو گی اور اس حوالے سے مذاکرات کا فیصلہ سود مند ثابت ہو گا۔ ساتھ ہی انہوں نے سہ فریقی مذاکرات کو اہمیت کا حامل اور بے مثال قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ بات چیت میں سلامتی کی صورتحال اوراس سے منسلک کئی اہم موضوعات زیر بحث آئے۔ ہلیری کلنٹن نے بتایا کہ اس حوالے سے اگلی بات چیت وقتی طور پراپریل کے آخر یا مئی کے آغاز میں ہو گی۔
اس موقع پر پاکستانی وزیرخارجہ شاھ محمود قریشی نے سوات میں ہونے والے حالیہ معاہدے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے کے بعد سوات میں طالبان کا نہیں بلکہ حکومت پاکستان کا کنٹرول ہے اور پاکستان کسی بھی صورت میں طالبان کے آگے نہیں جھکے گا۔ اس موقع پرافغان وزیرخارجہ رنگین دادفر سپانتا نے کہا کہ اس وقت عراق اورافغانستان سے زیادہ پاکستان کو دہشت گردی سے خطرے ہے ۔
اس سے قبل امریکہ کی جانب سے یہ بات کہی گئی تھی کہ رواں سال خطے میں سلامتی کی صورتحال پر کنٹرول کافی مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر باراک اوباما کے افغانستان میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے مزید فوجی بھیجنے کے اعلان کے بعد وزرائے خارجہ کی ان ملاقاتوں کو کافی اہمیت دی گئی۔ افغان وزیر دفاع محمد رحیم وردک نے امریکی صدرکے افغانستان کے لئے فوجی قوت میں اضافے کے فیصلے کو سراہتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ اس اضافے سے بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی پرقابو پانے میں مدد ملے گی۔ وردک بھی وزرائے خارجہ کی ملاقاتوں میں شریک تھے۔