امریکہ میں پیدا شدہ مالیاتی بحران اور اوباما انتظامیہ کا پیکج
30 جنوری 2009امریکی کانگریس کے ایوانِ نمائندگان نے صدر باراک اوباما کی جانب سے تجویز کردہ آٹھ سو اُنیس ارب ڈالر کے اقتصادی امدادی اور تحریکی پیکج کی منظوری دے دی ہے۔ اِس بل کی حمایت میں دو سو چوالیس اور مخالفت میں ایک سو اٹھاسی ووٹ ڈالے گئے۔ سابق امریکی صدر بُش کی جماعت ری پبلکن کے اراکین کے خیال میں یہ بہت ہی بڑا پیکج ہے جس کے قابلِ عمل ہونے پر انگلیاں اٹھائی جا سکتی ہیں۔
اِس بل کی حتمی منظوری اور عمل درامد کے بعد پیکج میں شامل اربوں ڈالر کی رقم سے امریکی انتظامیہ مالی منڈیوں کو استحکام دینے کی غرض سے کمزور ہو چکے مالیاتی اداروں کی باقیات اور حصص کو اونے پونے دامرں خریدے گی۔ اِس خرید کے عمل سے کوشش کی جائے گی کہ دم توڑتے مالیاتی اداروں کے جسموں میں نئی روح پھونکی جا سکے اور اُن کی تحریک سے امریکی اقتصادیات پر جمی برف کو پگھلایا جاسکے اور جمود کو ختم کرنے کی جانب ایک قدم پڑھایا جائے۔
اگلے ہفتے کے دوران امریکی سینٹ میں اِس کی منظوری کے لئے ووٹنگ ہو گی۔ سینٹ میں صدر اوباما کی جماعت ڈیموکریٹ کی اکثریت ہے اور وہاں سے اس کو آسانی سے منظوری حاصل ہو جائے گی لیکن ریپلکن اراکین کی جانب سے سخت تنقید کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ گزشتہ روز سینٹ کے ری پبلکن اراکین نے صدر اوباما کی اُس پیشکش کا مثبت جواب دیا ہے جس میں مفاہمت کا کہا گیا تھا۔ اب اِس بات کا بھی امکان پیدا ہو گیا ہے کہ اوباما کے تجویز کردہ پیکج میں سینٹ میں بحث کے دوران کچھ ترامیم شامل کی جائیں جو ری پبلکن اراکان کی طرف سے پیش کی جائیں گی۔
ماہرین کے خیال میں نئے صدر کی جانب سے پیش کردہ تمام تر ترغیبات کے باوجود ریپبلکن اراکین کو قائل نہ کرنے سے بھی اوباما کی امیدوں کو دہچکا پہچنے کا امکان ہے۔ دوسری جانب انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی تازہ رپورٹ سے بھی عیاں ہے کہ سردست امریکی مالیاتی بحران کا جن کسی طور بوتل میں واپس جانے کو تیار نہیں ہے۔