1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکہ میں صدرِ پاکستان کی اپنے افغان ہم منصب سے ملاقات

28 ستمبر 2006

صدرِ پاکستان جنرل پرویز مشرف نے آج ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کل شام امریکی صدر جورج ڈبلیو بُش اور افغان صدر حامد کرزئی کے ساتھ سہ فریقی بات چیت کافی مثبت رہی اور پاکستان اور افغانستان دونوں نے انسدادِ دہشت گردی کے لئے دو طرفہ تعاون بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/DYIz
(دائیں سے) افغان صدر حامد کرزئی، امریکی صدر بُش اور پاکستانی صدر مشرف
(دائیں سے) افغان صدر حامد کرزئی، امریکی صدر بُش اور پاکستانی صدر مشرفتصویر: AP

انتہا پسندی کے خلاف مﺅثر اقدامات، مشترکہ سرحدی علاقے میں سیکیورٹی کے مسئلے اور طالبان باغیوں کی سرگرمیوں میں اضافے کے حوالے سے گزشتہ چند روز سے صدر مشرف اور صدر کرزئی کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری تھا۔ امریکی ٹیلی وڑن چینل CNN کو دئےے علیحدہ انٹرویوز میں جہاں صدر کرزئی نے کہا کہ پاکستان کو دینی مدارس کے خلاف مزید مﺅثر کارروائی کرنی چائےے کیونکہ وہیں پر اسلامی انتہا پسندی پروان چڑھتی ہے، وہاں صدر مشرف کا کہنا تھا کہ صدر کرزئی اپنے ملک میں حقیقت سے نظریں چُرا رہے ہیں۔ القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن اور طالبان لیڈر مُلا محمد عمر کی ایک دوسرے کے ملکوں میں موجودگی کے حوالے سے بھی دونوں رہنماﺅں کے درمیان کافی سخت بیانات کا تبادلہ ہوا ہے۔

اِس سہ فریقی ملاقات سے قبل امریکی صدر جورج بُش نے اپنے اِن دونوں اتحادی ساتھیوں کو ذاتی دوست قرار دیا اور اُن کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے اِس بات پر زور دیا کہ دونوں ملکوں کو مشترکہ چیلنجوں کا سامنا ہے، اِس لئے اعتدال پسند قوتوں کو بحال رکھنے کے لئے اُنھیں مل کر کام کرنا ہو گا۔ صدر بُش نے صدر مشرف کے خلاف قاتلانہ حملوں کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اِن ملکوں میں انتہا پسند عناصر ایک طرف افغانستان میں جمہوری عمل کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں تو دوسری طرف صدر مشرف کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

واشنگٹن میں کل کے عشائیے کے دوران صدر مشرف نے ملک کے قبائیلی علاقوں میں حکومت سازی کو بہتر بنانے، معیشی ترقی کی کوششوں اور سیکیورٹی کے انتظامات کا زکر کیا جبکہ صدر کرزئی نے اِنھیں معاملات کے حوالے سے افغانستان بھر میں کئے جانے والے اقدامات پر تبادلہِ خیال کیا۔