1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکہ: ایک قاتل کو قدیم مغربی انداز میں سزائے موت

18 جون 2010

فائرنگ سکواڈ نے امریکی ریاست یوٹا میں جمعہ کے روز ایک مجرم قرار پائے قاتل کو موت کی سزا دی۔ سن 1976ء کے بعد سے ایسا پہلی بار ہوا کہ اس امریکی ریاست میں کسی مجرم کو فائرنگ سکواڈ کے ہاتھوں گولیوں سے سزائے موت دی گئی ہو۔

https://p.dw.com/p/Nwpu
مجرم گارڈنر چوبیس سال سے موت کی سزا کے منتظر تھےتصویر: AP

انچاس سالہ مجرم قرار پائے شخص رونی لی گارڈنر کو جمعہ کی صبح گرین وچ مین ٹائم کے مطابق ٹھیک چھ بج کر بیس منٹ پر یوٹا کی ایک سرکاری جیل میں یہ سزا دی گئی۔ پچیس برس پہلے سن 1985ء میں گارڈنر نے فرار ہونے کی ایک کوشش کے دوران عدالت کی ایک عمارت میں مائیکل برڈل نامی ایک اٹارنی کو بھی گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اُس وقت گارڈنر کو ایک بار ٹینڈر کے قتل کے سلسلے میں ایک مقدمے کا سامنا تھا۔ عدالت نے رونی گارڈنر کو بار ٹینڈر اور اٹارنی کے قتل کے سلسلے میں مجرم قرار دیا تھا۔

Messe Ronnie Lee Gardner
سالٹ لیک میں رونی گارڈنر کی موت کی سزا کے بعد ایک کتھیڈرل میں دعائیہ تقریب بھی ہوئیتصویر: AP

موت کی سزا کیسے دی گئی؟

پانچ اہلکاروں پر مشتمل فائرنگ سکواڈ نے انچاس سالہ رونی گارڈنرکو امریکی شہر سالٹ لیک کی جیل میں فائرنگ کر کے مار ڈالا۔ اس کے لئے طریقہ یہ اختیار کیا گیا کہ پہلے مجرم کا سر ڈھانپا گیا، پھر اُس کے سینے پر ایک نشان چسپاں کیا گیا اور پھر فائرنگ سکواڈ کے اہلکاروں نے اُسی نشان کو ہدف بنا کر فائرنگ کی۔ اس طرح موت کی سزا پرعمل در آمد کو قدیم مغربی انداز یا ’’اولڈ ویسٹ سٹائل‘‘ کہا جاتا ہے۔

اطلاعات کے مطابق رونی گارڈنر نے خود فائرنگ سکواڈ کے ہاتھوں مرنے کی درخواست کی تھی، جسے عدالت نے قبول کیا تھا۔ اس وقت امریکی ریاست یوٹا میں فائرنگ سکواڈ کے ذریعے موت کی سزا کے طریقہء کار پر پابندی عائد ہے تاہم مجرم گارڈنر نے نئے قانون سے قبل ہی فائرنگ سکواڈ کے ذریعے موت کی گزارش کر رکھی تھی۔ آجکل فائرنگ سکواڈ کی بجائے زہریلے انجکشن کے ذریعے موت کی سزا پر عمل در آمد کیا جاتا ہے۔

اپنی موت سے قبل گارڈنر نے سزا میں نرمی کے حوالے سے سپریم کورٹ میں ایک عرضی بھی داخل کی تھی، جسے مسترد کیا گیا۔

Angehörige von Ronnie Lee Gardner
مجرم رونی گارڈنر کی بیٹی برینڈی گارڈنر اور بھائی رینڈی گارڈنرتصویر: AP

موت سے پہلے کا منظر

سیاہ کپڑوں میں ملبوس گارڈنر کو سیاہ رنگ کی ہی ایک کرسی کے ساتھ باندھا گیا، اس کے سر کو ڈھانپا گیا تاکہ وہ اپنی موت کا منظر نہ دیکھ سکے اور پھر فائرنگ سکواڈ نے اس کے سینے پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔

کہا جا رہا ہے کہ مجرم نے اپنی موت سے پہلے اپنا آخری بیان دینے سے بھی انکار کیا تھا۔ اپنی موت سے پہلے گارڈنر نے جیل میں ونیلا آئس کریم، سیون اَپ سوڈا، سٹیک اور ایپل پائے کا مزہ لیا تھا۔

گارڈنر کے حامیوں کی مذمت

مجرم کے حامیوں کا موقف ہے کہ رونی گارڈنر بچپن میں ستایا ہوا تھا اور ذہنی بیماری کا بھی شکار تھا۔ ان حامیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ گارڈنر کافی عرصہ جیل میں رہنے کے بعد بہت بدل گیا تھا اور اپنی زندگی کا ایک نیا آغاز چاہتا تھا۔ گارڈنر نے حال ہی میں پیرول بورڈ سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ ایک آرگینک فارم شروع کرنا چاہتا ہے۔ مجرم کے بھائی رینڈی گارڈنر نے انتہائی جذباتی انداز میں کہا کہ رونی اور اس کی فیملی کا ایک خواب تھا کہ بچپن میں زیادتیوں کے شکار بچوں کی مدد کی جائے لیکن اس کی موت کے ساتھ وہ خواب بھی چکنا چور ہو کر رہ گیا۔

امریکہ، چین، بھارت، پاکستان، سعودی عرب اور ایران سمیت کئی دیگر ملکوں میں آج بھی مختلف طریقوں سے موت کی سزا پر عمل در آمد کیا جاتا ہے۔

رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں