امریکا میں تشدد میں کمی، پھر بھی یومیہ چوالیس قتل
5 اگست 2015امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے جرنل JAMA کی تازہ تحقیق کے نتائج کے مطابق 1980ء تا 2013ء کے بعد قتل کی وارداتوں میں نصف سے زائد فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم تشدد کے واقعات میں کمی کے باوجود امریکا میں سالانہ سولہ ہزار جب کہ یومیہ چوالیس افراد تک کر دیے جاتے ہیں۔ اس تحقیق کے مطابق غیر ہسپانوی سیاہ فام امریکیوں میں قتل کی وارداتوں کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
اگرچہ امریکا بھر میں انسانوں کو قتل کرنے کی شرح میں کمی ضرور ہوئی ہے لیکن بڑے بڑے شہروں میں رواں برس ایسے واقعات میں اضافہ بھی نوٹ کیا گیا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق واشنگٹن میں رواں برس 87 افراد کو قتل کرنے کے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں جب کہ گزشتہ برس وہاں ان کیسوں کی تعداد 69 تھی۔ بالٹی مور میں صرف جولائی کے ماہ میں ہی قتل کی 45 وارداتیں ہوئیں، جو 1972ء کے بعد کسی ایک ماہ میں کسی ایک شہر میں ہونے والے قتل کی کارروائیوں کے بعد سب سے زیادہ ہیں۔
گزشتہ تیس برسوں کے بعد تشدد میں کمی کے باوجود 2014ء میں نیویارک میں بھی تشدد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ نیویارک میں قتل کے واقعات میں دس فیصد سے زائد کا اضافہ امریکا کے اس سب سے بڑے شہر کی انتظامیہ کے لیے ایک لمحہ فکریہ قرار دیا جا رہا ہے۔ نیویارک میں گزشتہ بارہ مہینوں کے دوران قتل کے 193 کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ نیو یارک میں آبروریزی کے واقعات کے علاوہ دیگر جرائم کی شرح میں بھی اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔
رواں ہفتے ہی امریکا کے بڑے شہروں کے اعلیٰ پولیس اہلکاروں نے واشنگٹن میں ایک اہم ملاقات میں اس صورت حال پر تبادلہ خیال بھی کیا۔
JAMA کے مطابق امریکا بھر میں مختلف جرائم کی شرح میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ ان جرائم میں آبروریزی، بچوں کے ساتھ زیادتی اور پرتشدد حملے بھی شامل ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق امریکا بھر میں سالانہ بنیادوں پر بارہ ملین بالغوں کو گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب کہ دس ملین بچے مختلف قسم کی زیادتیوں کا نشانہ بنائے جاتے ہیں۔
رپورٹ کے مرکزی مصنف ڈاکٹر اسٹیون سمنر کے بقول اس طرح کے واقعات کی بہت کم تعداد پولیس یا طبی اہل کاروں کی رپورٹ کی جاتی ہے۔ سمنر کی ٹیم نے اپنی تحقیق میں یہ بھی نوٹ کیا ہے کہ جن بچوں یا بالغوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ان میں سے متعدد اپنی آیندہ کی زندگی میں مختلف قسم کی نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔