امریکا سے دوری پر روس کی فلپائن کو اسلحے اور دوستی کی پیشکش
4 جنوری 2017منیلا سے بدھ چار جنوری کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق فلپائن میں روسی سفیر نے آج کہا کہ منیلا حکومت بیرونی دنیا کے ساتھ اپنے روابط میں زیادہ تنوع اور جدیدیت کی خواہش مند نظر آتی ہے۔ اس تناظر میں روس بھی چاہتا ہے کہ روایتی طور پر امریکا کی اتحادی رہنے والی اس جنوب مشرقی ایشیائی ریاست کو ماسکو کا قریبی دوست ملک ہونا چاہیے۔
منیلا متعینہ روسی سفیر نے یہ بھی کہا کہ ماسکو فلپائن کو جدید ہتھیار مہیا کرنے پر بھی تیار ہے، جن میں طیارے اور آبدوزیں بھی شامل ہو سکتی ہیں۔
روئٹرز کے مطابق فلپائن کے صدر روڈریگو ڈوٹیرٹے کئی بار اپنے بہت جذباتی بیانات کے ساتھ منیلا کے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کے مستقبل کو شبہات میں ڈال چکے ہیں۔
صدر ڈوٹیرٹے نے اب تک نہ صرف اپنے ملک کی سابق نوآبادیاتی طاقت کے ساتھ مستقبل کے عسکری روابط کے بارے میں بہت سے سوال کھڑے کر دیے ہیں بلکہ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ امریکا کے ساتھ روایتی فوجی قربت کم کرتے ہوئے چین اور روس جیسی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کو بھی خاص طور پر فروغ دیا جائے۔
گزشتہ برس جون میں روڈریگو ڈوٹیرٹے کے منصب صدارت پر فائز ہونے کے بعد منیلا کے بیرونی دنیا کے ساتھ تعلقات میں اب تک کیا تبدیلیاں آ چکی ہیں، اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ روس کے دو جنگی بحری جہاز اسی ہفتے چار دن کے لیے فلپائن کا دورہ کریں گے، جس دوران دونوں ملکوں کی بحری فوجوں کے مابین پہلی مرتبہ سرکاری سطح پر رابطے بھی عمل میں آئیں گے۔
اس پس منظر میں منیلا میں تعینات روسی سفیر ایگور اناطولیےوچ خووائیف نے موقع کی مناسبت سے روسی فلپائنی تعلقات کے بارے میں اپنا موقف جس پریس کانفرنس میں بیان کیا، وہ روس کے آبدوز شکن جنگی بحری جہاز ’ایڈمرل ٹرائبَٹس‘ پر کی گئی۔
روسی سفیر نے کہا کہ ان کی رائے میں فلپائن اپنے پارٹنر بیرونی ملکوں کے حوالے سے تنوع کا خواہش مند ہے۔ انہوں نے کہا، ’’بات اِس یا اُس پارٹنر ملک کی نہیں ہے۔ تنوع کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ جو پہلے سے ساتھ ہے، اسے ساتھ رکھا جائے اور نئے پارٹنرز کو بھی ساتھ لے کر چلا جائے۔‘‘
ایگور خووائیف نے صحافیوں کو بتایا، ’’بات یہ ہے کہ روس فلپائن کا ایک قریبی دوست اور نیا قابل اعتماد ساتھی بننے کے لیے تیار ہے۔‘‘ تاہم اس سلسلے میں روسی سفیر نے نام لیے بغیر امریکا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا، ’’ہم آپ کے آپ کے روایتی ساتھی ملکوں کے ساتھ روابط میں کوئی مداخلت نہیں کرتے۔ اور آپ کے روایتی ساتھی ملکوں کو بھی فلپائن اور روس کے مفادات کا احترام کرنا چاہیے۔‘‘