امريکہ، يمن کے صدر صالح کا ساتھ چھوڑ چکا ہے
7 اپریل 2011اپنے رياستی ڈھانچوں کے کمزور ہونے اور پسماندگی کی وجہ سے يمن القاعدہ کے دہشت گردوں کی پناہ گاہ سمجھا جاتا ہے اور صدر صالح اب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ ميں قابل اعتماد ساتھی ثابت ہوئے ہيں۔
پچھلے کئی برسوں سے يمن کو جزيرہ نما عرب پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سلسلے ميں امريکی کارروائيوں کے ايک گڑھ کی حيثيت حاصل رہی ہے۔ صدر علی عبداللہ صالح امريکہ کے اہم ترين اتحاديوں ميں شمار ہوتے ہيں۔ انہوں نے اس شرط پر کہ ان کے ملک کو کثير مقدار ميں فوجی مدد ملتی رہے، سی آئی اے کی سرگرميوں اور مشتبہ دہشت گردوں پر امريکی فوجی حملوں کے لیے کھلی چھوٹ دی رکھی ہے۔ ليکن اب يمن شورش کی زد ميں ہے۔ حکومت کے خلاف مظاہرے مسلسل جاری ہيں اور سرکاری دستوں نے غير مسلح مظاہرين پر گولی چلائی ہے۔ صدر صالح اقتدار سے دستبردار ہونے سے انکار کررہے ہيں۔
چند دن پہلے امريکی وزير دفاع گيٹس نے کہا تھا کہ کسی کو يمن کے داخلی معاملات ميں مداخلت نہيں کرنا چاہيے۔ ليکن منگل پانچ اپريل کو صدارتی ترجمان نے مظاہرين کے خلاف يمنی حکومت کے طاقت کے استعمال پر تنقيد کرتے ہوئے کہا:
او ٹون
’’ دہشت گردی کے خلاف يمنی حکومت سے ہمارا تعاون کسی ايک فرد پر منحصر نہيں ہے۔ ہم متفکر ہيں کہ القاعدہ اور دوسرے گروپ سياسی بے چينی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے طاقت کے خلاء کو پر کرنے کی کوشش کريں گے۔ اس وجہ سے ہم بھی چاہتے ہيں کہ يمن ميں سياسی مکالمت شروع ہو اور صدر صالح نے جس سياسی تبديلی کا وعدہ کيا تھا وہ اب شروع ہو جائے۔‘‘
ايسا معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ميں ساتھی کی حيثيت سے يمنی صدر کے دن پورے ہو چکے ہيں۔ واشنگٹن نے ان کا ساتھ چھوڑ ديا ہے۔ اس کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ امريکی دفاعی بجٹ ميں يمن کے لیے کوئی فوجی مدد نہيں رکھی گئی ہے۔ پچھلے سال امريکہ نے سکيورٹی فورسز کی تربيت اور ہتھياروں کے لیے يمن کو 150 ملين ڈالر کی امداد دی تھی۔
امريکہ اور يورپ ميں طياروں ميں رکھے جانے والے بموں ميں يمنی افراد کے ملوث ہونے کی وجہ سے يورپ اور امريکہ کو خطرہ ہے کہ صدر صالح کی حکومت کے خاتمے اور انتشار سے دہشت گردی کا خطرہ بڑھے گا، ليکن دہشت گردی کے امور کے ماہر جيريمی اسکاہل کا کہنا ہے کہ اوباما انتظاميہ کا صرف اور صرف فوجی پہلو پر توجہ دينا غلط ہے ۔ ان کے مطابق علاقے کے غريب ترين ملک يمن ميں القاعدہ کے بارے میں پائے جانے والے خطرے ميں مبالغے سےکام ليا جارہا ہے۔
رپورٹ: ڈانيل شيشکيوٹس/ شہاب احمد صديقی
ادارت: امتياز احمد