1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقوام متحدہ کا گلوبل فورم

رپورٹ: امجد علی ۔ ادارت، عابد حسین5 نومبر 2009

کل چار نومبر سے یونان کے دارالحکومت ایتھنز میں ترکِ وطن سے متعلق اقوامِ متحدہ کی ایک کانفرنس شروع ہوئی ہے۔ اِس کانفرنس میں شریک ماہرین خاص طور پر ترکِ وطن کے رجحان کے معاشی اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/KOjy
تصویر: picture-alliance/ dpa

اِس کانفرنس میں شریک اقوامِ متحدہ اور غیر سرکاری تنظیموں کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ موجودہ عالمگیر اقتصادی بحران پوری دُنیا میں تارکینِ وطن کی صورتحال پر بھی منفی اثر ڈال رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق گذشتہ کئی برسوں میں پہلی مرتبہ تارکینِ وطن کی جانب سے واپس اپنے اپنے آبائی ملکوں میں بھیجی جانے والی رقوم میں کم از کم چھ فیصد یعنی کوئی 317 ارب ڈالر کی کمی واقع ہو گی۔ اقوامِ متحدہ کی ترکِ وطن سے متعلق تازہ ترین سالانہ رپورٹ کی تیاری میں مرکزی کردار کی حامل جَینی کلُوگ مان کہتی ہیں کہ موجودہ عالمگیر مالیاتی بحران ملازمتوں اور روزگار کے شعبے کو شدید طور پر متاثر کر رہا ہے اور بہت سے ملکوں میں بے روزگاری کی شرح دو ہندسوں میں پہنچ گئی ہے۔ کلُوگ مان کا مزید کہنا ہے کہ تارکینِ وطن عام طور پر ایسے شعبوں میں کام کرتے ہیں، جو اِس عالمگیر بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، جیسے کہ تعمیراتی شعبہ۔ کلُوگ مان کے خیال میں ان تارکینِ وطن کی سب سے زیادہ تعداد ہے بھی ایسے ملکوں میں، جنہیں عالمگیر مالیاتی بحران کے باعث خاص طور پر دھچکا پہنچا ہے، جیسے کہ امریکہ۔ مختصر یہ کہ موجودہ کساد بازاری تارکینِ وطن کی صورتحال پر شدید منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔

Illegale Einwanderer in Portugal
یورپی جیلوں میں غیر قانونی تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد مقید ہے: فائل فوٹوتصویر: AP

اِن منفی اثرات کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ تارکینِ وطن کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم ابھی بھی مغربی صنعتی ملکوں کی جانب سے دی جانے والی مجموعی ترقیاتی امداد سے زیادہ ہیں اور کئی ملین انسانوں کے لئے ضروریاتِ زندگی کے حصول کو آسان بنا رہی ہیں۔ رقوم کی اِس منتقلی کا دو تہائی حصہ امریکہ اور یورپ سے جاتا ہے۔ تاہم اقوامِ متحدہ کی سالانہ رپورٹ کے مطابق یہ تارکینِ وطن اپنے میزبان ملکوں کیلئے بھی بہت سُودمند ثابت ہو رہے ہیں۔ بہرحال کساد بازاری کے باعث ترکِ وطن کے رجحان میں بھی کمی آئی ہے۔ اِس کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے یونان کی تارکینِ وطن سے متعلق پالیسیوں کے ادارے کے ڈائریکٹر الیگذانڈروس ساووس کہتے ہیں کہ انسانوں کی تجارت کرنے والے ایجنٹ، جو تارکینِ وطن کو غیر قانونی طور پر امیر ممالک میں لے کر آتے ہیں، اُس آمدنی میں سے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں، جو یہ تارکینِ وطن امیر ملک میں کام کر کے حاصل کرتے ہیں۔ اِس مناسبت سے الیگذانڈروس ساووس کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب یہ ایجنٹ دیکھیں گے کہ تارکینِ وطن کو کوئی کام ہی نہیں ملے گا، تب اُن کے پاس انسانوں کو اسمگل کر کے یہاں لانے کا جواز بھی ختم ہو جائےگا۔

تاہم غریب ملکوں کے باشندوں کے پاس امیر ملکوں میں قسمت آزمانے کا ایک جواز بہرحال موجود ہے۔ ایتھنز میں جمع ماہرین اعدادوشمار کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ترکِ وطن کر کے کسی امیر ملک میں جا بسنے والے فرد کو اپنے آبائی ملک کے مقابلے میں پندرہ گنا زیادہ آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل 215 ملین انسان اپنے آبائی ملک سے باہر زندگی گذار رہے ہیں۔ یہ اتنی بڑی تعداد ہے کہ جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔