اقتصادی بحران کی وجہ سے برطانیہ کو درپیش شدید مشکلات
12 فروری 2009برطانوی معیشت کے بارے میں ہر ہفتہ ہی بری خبریں سننے میں آرہی ہیں۔ اب لندن میں مرکزی بینک کے سربراہMervyn King نے بھی کہہ دیا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ IMF نے تو برطانیہ کی معیشی پیداوار میں سال رواں کے دوران چار فیصد تک کی کمی کی پیش گوئی کی ہے لیکن بینک آف انگلینڈ کے اندازوں کے مطابق یہ کمی چار فیصد سے کہیں زیادہ ہو گی۔
میرون کنگ کے بقول یہ خطرہ بھی ہے کہ موجودہ کساد بازاری اب تک کے اندازوں کے برعکس زیادہ شدید اور طویل ہو گی۔ " تمام منفی امکانات تنزلی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اور یہ خطرات اس لئے شدید نوعیت کے ہیں کہ ہم ابھی تک نہیں جانتے کہ آیا دنیا بھر کی حکومتوں کے استحکامی اقدامات مئوثر ثابت ہوں گے اور مالیاتی ادارے دوبارہ قرضے جاری کرنا شروع کردیں گے۔ ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ آیا معاشی حفاظتی اقدامات عالمی تجارت کے لئے اضافی رکاوٹوں کا سبب بنیں گے۔"
برطانیہ میں توانائی کے شعبے میں ہزاروں کارکنوں کی اچانک کی جانے والی حالیہ ہڑتالیں بھی اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ کہیں یورپ میں روزگار کی کھلی منڈی کا دورختم تو نہیں ہو گیا۔ "برطانیہ میں روزگار برطانوی کارکنوں کے لئے"، ہڑتالی ملازمین کا صرف یہ ایک نعرہ ہی اس وضاحت کے لئے کافی ہے کہ برطانیہ میں روزگار کی منڈی کتنے دباؤ کا شکار ہے۔
برطانیہ میں بے روزگارافراد کی تعداد ابھی حال ہی میں دو ملین سے تجاوز کرگئی جو کل افرادی قوت کا 6.3 فیصد بنتا ہے۔ چند ماہ قبل بے روزگار ہوجانے والے ایک سول انجینئر Steve Mattock کہتے ہیں: "جب سے میری ملازمت ختم ہوئی ہے، نئی نوکری کے لئے 300 سے زائد درخواستیں دینے کے باوجود کسی ایک بھی ادارے نے مجھے انٹرویو کے لئے نہیں بلایا۔ مجھے اپنی زندگی میں پہلے بھی چار مرتبہ بے روزگاری کا سامنا رہا ہے لیکن اس مرتبہ تو صورت حال انتہائی مشکل ہے۔"
برطانیہ میں اس وقت ملکی معیشت کی حالت اتنی خراب ہے کہ عوامی شعبے میں نئے قرضوں کی شرح اگلے برس سالانہ بجٹ کے کم ازکم 10 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ بینک آف انگلینڈ مرکزی شرح سود مزید کم کرکے صرف ایک فیصد کرچکا ہے اور برطانوی پاؤنڈ کی قدر وقیمت بھی قریب ایک چوتھائی کم ہو چکی ہے۔ ایسے میں ایک آخری حل یہ بچا ہے کہ کہیں لندن حکومت اضافی کرنسی نوٹ چھاپنے پر مجبور نہ ہوجائے۔