افغان پالیسی پر غور کریں، اوباما کو کانگرس ممبران کا مشورہ
18 مارچ 2009ممبران نے ایک خط میں لکھا '' ہم آپ پر زور ڈالتے ہیں کہ ( افغانستان میں( اس طرح کے عسکری اضافے سے قبل دوبارہ غور کریں''۔ ممبران نے کہا کہ اس طرح کی کوئی بھی مجوزہ تعیناتی بے سود ثابت ہو سکتی ہے۔ خط میں مزید تحریر کیا گیا '' ہم اس بات پر فکر مند ہیں کہ افغانستان میں عسکری کامیابی سے پاکستان میں جاری عسکری کارروائیوں میں، شاید مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس صورتحال سے خطہ مزید عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں امریکہ کےخلاف دشمنی میں اضافہ بھی ممکن ہے''۔
ری پبلکن پارٹی کےسابق صدراتی امیدوار رون پال اور ڈیموکریٹ Dennis Kucinich نے صحافیوں کو بتایا کہ نئی امریکی انتظامیہ کو افغانستان کے بارے میں اپنی پالیسی واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ پال نے کہا کہ صدر اوباما کو بھیجے گئے خط میں صرف احتیاط برتنے پر زور دیا گیا ہے کیونکہ وہ امید کرتے ہیں نئی انتظامیہ سفارت کاری اور دیگر طریقوں سے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرے گی نہ کہ صرف عسکری کارروائی کو ہی واحد حل سمجھےگی۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں اضافی فوجیوں کی تعیناتی اور پاکستان میں ڈرون حملوں کا مطلب ہے کہ صدر بش کی پالیسی کو ہی برقرار رکھا جا رہا ہے۔
Dennis Kucinich نے کہا کہ افغانستان میں موجودہ خستہ صورتحال میں بہتری کے لئے صرف عسکری کارروائی جواب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا'' افغان شہری اور وہاں گھرانے مزید تباہی اور تشدد نہیں چاہتے۔ وہ تعلیم ، روزگار اور گھر چاہتے ہیں۔ وہ سلامتی ،قانونی تحفظ اور بہتری کے مواقع چاہتے ہیں''۔
دوسری طرف حکام کے مطابق امریکی صدر باراک اوباما، اکتیس مارچ کو دی ہیگ میں ہونے والی افغانستان پر اعلی سطحی میٹنگ ، اوراسی حوالے سے کسی متفقہ حکمت عملی تیار کرنے کے لئےاپنے مغربی ممالک کے دورے سے قبل افغانستان کے لئے اپنی اسٹریٹجک جائزے کو منظر عام پر لانے والے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں امریکہ کی نئی حکمت عملی میں پاکستان کے لئے مزید اقتصادی اور عسکری مدد کے علاوہ افغانستان میں سیکورٹی فورسزز کی استعداد کاری اور پاکستان میں چھپے انتہا پسندوں کی طرف سے افغان علاقوں میں ہونے والے حملوں میں کمی لانا ہے۔