1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان مہاجرین کو واپس بھیجنا اتنا آسان بھی نہیں

امتیاز احمد9 نومبر 2015

جہاں زیادہ سے زیادہ شامی مہاجرین کو پناہ دینے کی بات کی جا رہی ہے، وہاں جرمن حکومت زیادہ سے زیادہ افغانوں کی واپسی کا بھی کہہ رہی ہے۔ لیکن کیا افغان مہاجرین کو واپس بھیجنا اتنا آسان ہوگا، جتنا کہ سیاستدان سوچ رہے ہیں؟

https://p.dw.com/p/1H2Is
Deutschland Flüchtlinge aus Afghanistan
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler

جرمنی پہنچنے والے افغان مہاجرین کی تعداد تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ صرف اکتوبر میں جرمنی پہنچنے والے افغان مہاجرین کی تعداد اکتیس ہزار سے زائد تھی۔ شامی مہاجرین کے بعد یورپ پہنچنے والے سب سے زیادہ مہاجرین کا تعلق افغانستان سے ہے۔ جرمن حکومت اب ان کے لیے نئے قوانین بنانے جا رہی ہے۔

گزشتہ جمعرات کو حکومتی اتحادی جماعتوں نے کئی دیگر معاملات کے علاوہ اس پر اتفاق کیا ہے کہ افغانوں کے لیے ’’متبادل اندرون ملک ہجرت‘‘ کے عمل کو تیز کیا جائے گا۔ ابھی تک یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ قانونی وجوہات کی بناء پر بہت کم افغان مہاجرین کو واپس بھیجا گیا ہے تاہم جرمن حکومت کے نئے قوانین کے تحت افغان مہاجرین کو واپس بھیجا جا سکے گا۔ تاہم یہ بات اب بھی واضح نہیں ہے۔

کن افغان مہاجرین کو پناہ ملے گی؟

افغان نژاد ماہر سیاسیات متین برکی کے مطابق مہاجرین کو واپس بھیجنے یا سیاسی پناہ دینے کے عمل میں اس بات کا بہت بڑا عمل دخل ہوتا ہے کہ اس کا تعلق افغانستان کے کس علاقے سے ہے۔ یونیورسٹی ہیمبرگ کے استاد متین برکی کا کہنا تھا، ’’اگر تو درخواست دہندہ کا تعلق اس علاقے سے ہے، جہاں طالبان کی مکمل یا جزوی حکومت ہے، ان کو سیاسی پناہ ملنے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔‘‘ تاہم ان کے مطابق بہت سے پشتون، تاجک، ہزارہ اور دیگر نسلی گروپوں کے ممبران کے لیے یہ ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے کہ وہ افغانستان کے کسی دوسرے حصے میں محفوظ نہیں ہیں، ’’جرمن حکام ان مہاجرین کو کہتے ہیں کہ اگر آپ اپنے علاقے میں محفوظ نہیں تو آپ افغانستان کے کسی دوسرے شہر میں چلے جائیں۔‘‘ اکثر اوقات ان مہاجرین کی پناہ کی درخواستیں مسترد کر دی جاتی ہیں لیکن افغان مہاجرین ایسے فیصلوں کے خلاف عدالت سے رجوع کر لیتے ہیں۔ جرمنی میں مہاجرین کی مدد کرنے والی تنظیم کے مطابق رواں برس کی پہلی ششماہی میں عدالت کی طرف سے 76 فیصد سے بھی زائد مہاجرین کو رہنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔

لوئر سیکسنی کی اعلیٰ انتظامی عدالت کے ایک فیصلے کے مطابق مغربی طرز زندگی کی مالک افغان خواتین کو تشدد اور سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں والی جگہ واپس نہیں بھیجا جا سکتا۔ اسی طرح ان افغانوں کی حفاظت بھی ضروری قرار دی گئی ہے، جو اسلام سے عیسائیت اختیار کر چکے ہیں۔

متین برکی ایک ترجمان کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ مہاجرین کو واپس بھیجنے کا عمل بہت مہنگا پڑتا ہے۔ دوسری جانب جرمن حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ مستقبل میں خاص طور پر افغان مہاجرین کے کیسز کو تین ہفتوں کے اندر اندر نمٹا دیا جائے گا۔

متین برکی اور دیگر تجزیہ کاروں کے مطابق برلن حکومت کے سخت اقدامات کا اتنا فائدہ نہیں ہونے والا، جیسا کے سوچا جا رہا ہے۔ متین برکی کہتے ہیں، ’’جس طرح سیاستدان سوچ رہے ہیں اور میڈیا میں جس طرح بیان کیا جا رہا ہے، حقیقت میں ایسا ہونا بہت ہی مشکل ہے۔‘‘