افغان مشن جاری رہے گا، براؤن
12 جولائی 2009عراق میں برطانوی اَفواج کے چھ سالہ مشن کے دوران ایک سو اُناسی برطانوی فوجی مارے گئے تھے جبکہ افغانستان میں اب تک ایک سو چوراسی برطانوی فوجی مارے جا چکے ہیں۔ عراق کے مقابلے میں افغانستان میں اپنے زیادہ جانی نقصان کے باوجود برطانیہ نے افغانستان مشن کو بھرپور انداز میں جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما نے بھی برطانوی دَستوں کی کوششوں کو سراہا ہے اور مرنے والے فوجیوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔
جمعرات کے روز بھی برطانیہ کے دو فوجی مارے گئے تھے۔ اِس جانی نقصان اور برطانوی دَستوں میں اِس پر رد عمل کے حوالے سے ہلمند صوبے میں برطانوی افواج کے ترجمان نِک رچرڈسن نے کہا: بلاشبہ فوجی اپنے ساتھیوں کی ہلاکتوں سے متاثر ہوتے ہیں لیکن وہ جانتے ہیں کہ یہ وقت رنجیدہ ہونے کا نہیں ہے۔ اُنہیں علم ہے کہ اُنہیں اپنے مشن پر توجہ مرکوز رکھنی ہے اور اُسے آگے بڑھانا ہے۔ ہماری ہمدردیاں مرنے والے فوجیوں کے لواحقین کے ساتھ ہیں، جنہیں پتہ ہونا چاہیے کہ اُن کے پیاروں کی قربانیں رائیگاں نہیں جائیں گی۔
اپنے دستوں کے اتنے بڑے جانی نقصان پر برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن کا بھی کہنا یہ تھا کہ برطانیہ اور پوری دُنیا کو دہشت پسندانہ حملوں سے محفوظ رکھنے کے سلسلے میں یہ مشن بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ براؤن کے مطابق اگر افغانستان میں طالبان کو پھر سے برسراقتدار آنے دیا جائے اور القائدہ کو اُسی آزادی سے کام کرنے دیا جائے، جو اُسے سن 2001ء سے پہلے حاصل تھی تو ایک ملک کے طور پر برطانیہ کم محفوظ ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان اور پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے تانے بانے ایک طرح سے برطانیہ کی سرزمین سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔
امریکی صدر باراک اوباما نے بھی افغانستان میں برطانوی دَستوں کے مشن کو سراہا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اُن کا دل مرنے والے برطانوی فوجیوں کے ساتھ ہے۔ اوباما کے مطابق برطانیہ نے دہشت گردی کے خلاف اتحاد میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے اور اِس بات کو جان لیا ہے کہ نہ افغانستان کو اور نہ ہی پاکستان کو القائدہ کی محفوظ پناہ گناہ بننے دیا جا سکتا ہے کیونکہ اِسی تنظیم نے نیویارک اور لندن کو حملوں کا نشانہ بنایا تھا۔ اِسی دوران جنوبی افغانستان میں اپنے تین ہفتے سے جاری آپریشن کے دوران برطانوی اور افغان افواج کے ہزاروں سپاہی اب تک دو سو تک طالبان کو ہلاک کر چکے ہیں۔ ملک میں بیس اگست کو مجوزہ صدارتی انتخابات کا محفوظ انعقاد اِس آپریشن کا بڑا مقصد ہے۔