افغان شہری۔ ایک مختلف زاویہ
جرمن فوٹوگرافر ژینز اُمباخ نے شمالی افغانستان کا سفر کیا تاکہ اُن لوگوں کو خراج تحسین پیش کیا جائے، جو جرمن ملٹری مشن کی وجہ سے متاثر ہوئے۔
مزارِ شریف میں کئی چہرے
یہ بزرگ شخص اُن 100 سے زائد افغان شہریوں میں سے ایک ہیں جن کی تصاویر کو جرمن فوٹوگرافر ژینز اُمباخ نے افغانستان کے شمالی حصے کے شہر مزارِشریف کے دورے کے دوران اپنے کیمرے میں محفوظ کیا۔
حقیقی چہرہ
اُمباخ ان لوگوں کے چہرے دکھانا چاہتے تھے جو شہ سرخیوں میں نہیں رہے۔ امباخ کے مطابق، ’’جرمن فوج افغانستان میں لوگوں کے تحفظ کے لیے گئی تھی۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ’’اس تصویر میں دکھائی گئی لڑکی نے اپنی تمام زندگی اپنے علاقے میں غیر ملکی فوجیوں کی موجودگی میں گزاری ہے۔‘‘
دل کش منظر
اُمباخ نے پہلی مرتبہ افغانستان کا سفر 2010ء میں کیا تھا، اس وقت کے بعد سے وہ اس ملک کے سحر میں جکڑے ہوئے ہیں۔ وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’میں اور میرا اسسٹنٹ مزار کے قریب صحرا میں کھڑے تھے۔ اُس نے مجھے بتایا کہ وہ اس منظر سے اس قدر مرعوب ہوا ہے کہ اُس کا دل رونے کو چاہ رہا ہے۔ میڈیا اس ملک کی صرف بُری تصویر ہی دکھاتا ہے۔‘‘
مہمانداری
افغان لوگوں نے اُمباخ کا استقبال گرمجوشی اور محبت سے کیا۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہمیں اکثر کھانوں اور موسیقی کی محفلوں یا پھر قومی کھیل بزکشی کے میچ دیکھنے کی دعوت دی جاتی۔‘‘ تاہم سکیورٹی وجوہات پر انہیں زیادہ تر ایسی دعوتوں سے معذرت کرنا پڑتی۔
سکیورٹی
شہر میں لوگوں کی تصاویر لینا آسان نہیں تھا۔ جب تصاویر اتارنے کا مرحلہ ہوتا تو سکیورٹی ہمیشہ سخت ہوتی۔ اُمباخ کے مقامی پروڈیوسر نے انہیں واضح ہدایات دے رکھی تھیں کہ وہ کس طرح کی تصاویر بنا سکتے ہیں اور کس طرح کی نہیں۔
سیاستدان اور عسکریت پسند
اُمباخ نے عطاء محمد نور جیسے اثر و رسوخ رکھنے والے سیاستدانوں کی تصاویر بھی اتاریں۔ افغان صوبہ بلخ کے گورنر جرمنوں کے ایک اہم پارٹنر تھے۔ اُمباخ نے بعض عسکریت پسندوں کی تصاویر بھی بنائیں۔
جرمنی میں نمائش
جرمنی میں اُمباخ کی تصاویر کی نمائش رواں ماہ کے آغاز میں شروع ہوئی ہے۔ اس نمائش کا عنوان ہے ’’دی افغانز‘‘۔ اُن کی تصاویر کولون میں ہونے والی فوٹوگرافی کی دنیا کی بڑی ترین نمائشوں میں سے ایک ’’فوٹوکینا‘‘ میں پیش کی گئیں، جس کے لیے تعاون جرمنی کے ایک معروف کیمرہ کمپنی نے کیا۔
فوٹو بُک
ژینز اُمباخ ایک فوٹو بُک شائع کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ کراؤڈ فنڈنگ کے پلیٹ فارم ’’کِک اسٹارٹر‘‘ کے ذریعے وہ اپنے اس پراجیکٹ کے لیے فنڈز جمع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اُمباخ کہتے ہیں، ’’فوٹو بُک ایک ایسی دستاویز ہے جو قائم رہتی ہے۔‘‘ ان کو امید ہے کہ ’دی افغانز‘ نامی فوٹوبُک مستقبل کی نسلوں کو اُس وقت کے بارے میں معلومات فراہم کرے گی جب جرمنوں کو افغانستان میں تعینات کیا گیا تھا۔