1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان سرحد کھول دی جائے، نواز شریف

عابد حسین
20 مارچ 2017

پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے افغان سرحد کھولنے کا حکم جاری کیا ہے۔ سرحدوں کی بندش سے اطرف کے کاروباری حلقوں کو روزاہ کی بنیاد پر لاکھوں امریکی ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2ZWnl
Pakistan und Afghanistan Grenzöffnung bei Torkham
پاک افغان سرحد پر طورخم گزرگاہتصویر: DW/O. Deedar

آج پیر بیس مارچ کو پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے افغان سرحد پر کاروباری  راستوں کو کھولنے کا حکم دیا ہے۔ نواز شریف کے حکم کے مطابق تمام سرحدی گزرگاہیں فوری طور پر کھول دی جائیں۔ پاکستانی وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں بتایا گیا کہ وزیراعظم نے یہ فیصلہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کیا ہے۔ اس بیان میں شریف نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ کابل حکومت ایسے تادیبی اقدامات کرے گی تا کہ دوبارہ سرحدی راستوں کو بند کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔

جنوبی ایشیا میں افغان سرحدی گزرگاہوں کو انتہائی مصروف راستہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت اور سامان کی خرید و فرخت کے علاوہ بھارت کو روانہ کیا جانے والا افغان پھل اور خشک میوہ جات بھی اسی گزرگاہ سے گزرتے ہیں۔

پاکستانی وزیراعظم کے بیان میں کہا گیا کہ انہوں نے یہ فیصلہ خیرسگالی کے طور پر کیا گیا ہے کیونکہ دونوں ملک مذہبی، ثقافتی اور تاریخی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ شریف کے مطابق افغانستان میں پائیدار امن سارے خطے کے استحکام کے لیے ضروری ہے۔ پاکستانی وزیراعظم کا خیال ہے کہ سرحدی بندش کسی طور پر بھی دونوں ملکوں کی عوام کے مفاد میں نہیں ہے۔

Pakistan und Afghanistan Grenzöffnung bei Torkham
طورخم سرحدی راستے پر افغانستان میں داخل ہونے والوں کا ہجومتصویر: DW/O. Deedar

یہ امر اہم ہے کہ رواں مہینے کے اوائل میں عارضی طور پر طورخم اور چمن کی سرحدوں کو کھولا گیا تھا تا کہ محصور افغان باشندے اپنے ملک میں داخل ہو سکیں۔

 ان راستوں کو پاکستانی فوج نے رواں برس وسط فروری میں حفاظتی نکتہ نگاہ کے تناظر میں بند کیا تھا۔ اسلام آباد کی جانب سے یہ الزام بھی لگایا گیا کہ پاکستان کو مطلوب تمام دہشت گرد افغانستان کی سرزمین پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔ اس دوران سرحد پر دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان شیلنگ کو بھی رپورٹ کیا گیا تھا۔ اس کشیدگی کے دوران دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے علاقوں میں موجود عسکریت پسندوں کی فہرستوں کا بھی تبادلہ کیا تھا۔

سرحدی گزرگاہوں کی سولہ فروری سے شروع ہونے والی بندش پر اطراف کی تاجر برداری اور کاروباری حلقے شکایت کرتے پھرتے تھے کہ انہیں روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں روپوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ اُدھر افغانستان میں پاکستان سے برآمد کی جانے والے مصنوعات اور اشیائے خوراک کی قیمتوں میں حیران کُن اضافہ دیکھا گیا ہے۔ طورخم اور چمن کی سرحدی گزرگاہوں پر پاکستانی اشیاء کے لدے ٹرک سرحد عبور کرنے کی اجازت کے منتظر بتائے جاتے ہیں۔