1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان خواتین کے حقوق اولین ترجیح ہونی چاہئے، ہیومن رائٹس واچ

14 جولائی 2010

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں خواتین کے حقوق کو مدنظر رکھا جائے اور اگر ان کے ساتھ کوئی معاہدہ طے پاتا ہے تو اس میں خواتین کے حقوق کی ضمانت ہونی چاہئے۔

https://p.dw.com/p/OIjR

کابل میں جاری ہونے والی ہیومن رائٹس واچ کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کی طرف سے خواتین پر مسلسل جاری حملوں اور زیادتیوں کے واقعات سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ سیاسی سطح پر ہونے والے مذاکرات میں خواتین کے حقوق کونمایاں اہمیت حاصل ہونی چاہئے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ افغان حکومت اور بین الاقوامی برادری نے اس بات کو نظر اندازکیا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں خواتین کے حقوق کی بات کی جائے۔

'ٹین ڈولر طالب' اور 'خواتین کے حقوق' کے نام سے جاری کی جانے والی یہ رپورٹ 65 صفحات پرمشتمل ہے۔ رپورٹ اس امرکا بھی احاطہ کرتی ہے کہ موجودہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مصالحانہ کوششیں اور ممکنہ معاہدہ کس طرح خواتین کے حقوق کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس رپورٹ میں طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں میں خواتین پر ہونے والے مظالم بھی گنوائے گئے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کس طرح وہاں عورتوں پرحملے ہوتے ہیں، لڑکیوں کے سکول نشانہ بنتے ہی‍ں اور بے گناہ خواتین کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے۔

Frauen in Afghanistan
ہیومن رائٹس واچ کو ڈر ہے کہ کہیں یہ مذاکرات خواتین کے حقوق کے حوالے سے پچھلے نو سال کی محنت کو ضائع نہ کردیںتصویر: AP

ہیومن رائٹس واچ کی یہ رپوٹ ایسے موقع پر سامنے آئی ہے، جب افغانستان کے صدر حامد کرزئی 50 طالبان لیڈروں کے نام اقوام متحدہ کی دہشت گردوں کی فہرست سے خارج کرانے اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

واشنگٹن میں ہیومن رائٹس واچ کے دفترکے سربراہ ٹوم مالینوفسکی نے افغانستان میں خواتین کے حقوق کے بارے میں کہا کہ ایسا ہرگز بھی نہیں ہونا چاہیئے کہ طالبان کے ساتھ کسی طرح کی مصالحت کے دوران افغان حکومت خواتین کے حقوق کو نظر انداز کرے۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ خواتین کے ساتھ بہت زیادتی ہوگی۔

طالبان کے دور میں خواتین کو کسی قسم کے حقوق حاصل نہیں تھے۔ انہیں سکول جانے، کام کرنے اور حتی کہ اکیلےگھر سے نکلنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ اب بھی ان علاقوں میں، جہاں طالبان کا اثرورسوخ زیادہ ہے، کام کی غرض سے گھر سے نکلنے والی خواتین پرحملے ہوتے ہیں اورانہیں ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ ایک خاتون جو ایک سرکاری ادارے میں برسرروزگار تھیں اسے اپنی ملازمت اس وجہ سے چھوڑنی پڑی کیونکہ طالبان نے فروری 2010 ء میں اسے ایک دھمکی آمیز خط میں کام چھوڑنے کوکہا تھا۔

Frauen in Afghanistan
طالبان کے اثرورسوخ والے علاقوں میں خواتین پر اب بھی حملے ہوتے ہیں اور انہیں ڈرایا دھمکایا جاتا ہےتصویر: AP

اسی طرح 22 سالہ ھوسئی، جو ایک امریکی کمپنی کے لئے کام کرتی ہیں، اسے بھی ٹیلیفون پردھمکیاں ملتی تھیں۔ تاہم وہ اپنی ملازمت برقرار رکھے ہوئے تھی کہ رواں برس اپریل میں اسے فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا گیا۔ اس واقعے کے ایک دن بعد ایک اور خاتون کوخط کے ذریعے دھمکی دی گئی کہ اگر اس نےکام پرجانا نہ چھوڑا تواسے بھی ھوسئی کی طرح مار دیا جائے گا۔

اگرچہ بین الاقوامی برادری نے افغان خواتین کی حفاظت کے لئے اقدامات کا عزم کیا لیکن انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے خدشہ ظاہر کیا ہےکہ افغان حکومت، طالبان کے ساتھ مصالحتی کوششوں کے دوران خواتین کےحقوق کو قربان بھی کر سکتی ہے۔

رپورٹ : بریخنا صابر

ادارت : عدنان اسحاق