1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان انتخابات سے قبل تشّدد کی لہر

16 اگست 2009

افغانستان میں آئندہ جمعرات کے مجوزہ صدارتی انتخابات سے پہلے اس ملک میں تشدد کی آگ ایک بار پھر بھڑک اٹھی ہے۔

https://p.dw.com/p/JCQa
کابل میں نیٹو ہیڈکوارٹرز کے باہر خودکش حملے سے آس پاس کی عمارتوں کے شیشے بھی ٹوٹےتصویر: AP

مبصرین کا کہنا ہے کہ اس بار کے صدارتی انتخابات گزشتہ بار سے مختلف ہوں گے۔ اس بارے میں کابل میں موجود ایک پاکستانی صحافی احمد ولی نجیب نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ بیس اگست کو صدارتی انتخابات کا انعقاد ہوگا تاہم اس کے دوران سلامتی کی صورتحال کیسی رہتی ہے، اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

نجیب نے مزید کہا کہ اس بار کے انتخابات سے قبل طالبان نے واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ وہ عوام کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکیں گے اور اس کے لئے ممکنہ کارروائی بھی کریں گے۔

Anschlag in Afghanistan
طالبان نے اس بار انتخابی عمل میں رخنہ ڈالنے کی باقاعدہ طور دھمکیاں دی ہیںتصویر: AP

دوسری جانب ملک میں سلامتی کی بد ترین صورتحال اور خوف و ہراس کی فضا کے باوجود عوام کا کہنا ہے کہ وہ اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔ ادھر خود الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ بڑے شہروں کے علاوہ بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں ووٹنگ کا عمل دشوار ہوگا۔ خصوصاً پکتیہ، پختیکہ، خوست، ہیلمند، زابل، غزنی اور ہیرات میں ایسی بہت سی جگہیں ہیں جہاں پر یا تو ووٹر ٹرن آؤٹ بہت کم ہوگا یا یہ بھی ممکن ہے کہ ووٹ ڈالنے کے لئے ان علاقوں کے عوام گھر سے نکلیں ہی نہیں۔ احمد ولی نجیب نے تاہم بتایا کہ کابل شہر کے اندر اس وقت انتخابات کے حوالے سے بہت گہما گہمی اور رونق دیکھنے میں آ رہی ہے۔ ’’انتخابی مہم اور اس سلسلے میں ریلیوں اور دیگر پروگراموں کا انعقاد ہو رہا ہے۔ کابل شہر کے اندر اس وقت الیکشن کا بھرپور ماحول پایا جاتا ہے البتہ کابل کے مضافاتی علاقوں میں صورتحال ایسی نہیں ہے۔‘‘

Wahlen Afghanistan 2009
کابل شہر میں انتخابی سرگرمیاں زوروں پر ہیں، موجودہ صدر کرزئی فیورٹ امیدوار قرار دئے جارہے ہیںتصویر: AP

اس سوال کےجواب میں کہ کیا صدر کرزئی اس بار کے صدارتی انتخابات کی مہم میں دوسرے امیدواروں کے مقابلے میں آگے نظر آ رہے ہیں؟ احمد ولی نے کہا: ’’حامد کرزئی اس وقت سب سے زیادو مقبول امیدوار نظر آ رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ، اشرف غنی احمد زئی اور رمضان بشر کے لئے بھی عوامی پذیرائی موجود ہے لیکن کسی بھی امیدوار کو کامیابی حاصل کرنے کے لئے اکیاون فیصد ووٹ درکار ہوں گے۔ اگر کوئی بھی امیدوار اکیاون فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہسکا تو یہ انتخابات دوسرے مرحلے میں داخل ہو جائیں گے، جو آئندہ اکتوبر میں منعقد ہوں گے۔‘‘

احمد ولی کا کہنا ہے کہ زیادہ تر مبصرین کا یہی خیال ہے کہ انتخابات کے پہلے مرحلے میں کسی بھی امیدوار کو اکیاون فیصد ووٹ نہیں مل سکیں گے۔

اصل مقابلہ تین امیدواروں کے درمیان ہے۔ ’’موجودہ صدر احمد کرزئی، ڈاکٹر عبد اللہ عبداللہ، جو کرزئی کی حکومت میں سابق وزیر خارجہ تھے اور ڈاکٹر اشرف غنی احمد زئی کے درمیان کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔‘‘

دوسری جانب برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن نے کہا ہے کہ برطانوی فوج افغانستان میں غیر معمولی کردار ادا کر رہی ہے اورانکا ملک اس میدان میں ڈٹا رہے گا۔

Britische Truppen in Basra, Irak
برطانوی وزیر اعظم گورڈن براوٴن نے کہا کہ افغان مشن کی کامیابی بہت اہم ہےتصویر: picture alliance/dpa

یہ بیان گورڈن براؤن کی طرف سے ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب گزشتہ ہفتے ہیلمند میں ایک بم حملے میں شدید زخمی ہونے والا ایک برطانوی فوجی زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسا۔ اس کی ہلاکت سے مجموعی طور پر افغانستان میں ہلاک ہونے والے برطانوی فوجیوں کی تعداد دو سو ہو گئی ہے۔

Bundeskanzlerin Angela Merkel
جرمن چانسلر میرکل نے کابل خودکش حملے شدید الفاظ میں مذمت کیتصویر: picture-alliance/ dpa

ادھر برطانیہ میں کروائے جانے والے ایک سروے سے پتہ چلا ہے کہ برطانوی عوام کی اکثریت افغانستان سے اپنے فوجیوں کے انخلاء کے حق میں ہے۔گورڈن براؤن نے اپنے عوام کو ایک بیان میں یہ پیغام دیا کہ برطانوی فوجیوں کی ہلاکت کی افسوسناک خبر سے مشتعل ہونے کے بجائے انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ آخر برطانوی فوج افغانستان میں کیوں متعین کی گئی ہے اور یہ کہ لوگ ایسی قربانیاں کیوں دیتے ہیں؟ براؤن نے مزید کہا کہ دہشت گردی کی منصوبہ بندی تین چو تھائی حد تک پاکستان کے پہاڑی، شمالی علاقہء جات اور افغانستان میں کی جاتی ہے۔ ’’دنیا اور برطانیہ کی سلامتی اور تحفظ کا تقاضہ یہی ہے کہ برطانیہ افغانستان میں امن اور سلامتی کی بحالی کے لئے کئے جانے والے وعدوں کو پورا کرے۔‘‘

برطانوی وزیر اعظم نے مزید کہا کہ انکی حکومت افغانستان متعین اپنے فوجیوں کو ان کے مشن کی کامیابی کے لئے ممکنہ سپورٹ فراہم کرے گی۔

ادھر جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے بھی گزشتہ روز کابل میں نیٹو ہیڈ کوارٹرز کے سامنے ہونے والے خود کش بم حملے کو افغانستان میں جمہوریت کے خلاف ایک بزدلانہ سازش قرار دیتے ہوئے برلن حکومت کی طرف سے نیٹو پارٹنرز کو مستقبل میں بھی افغانستان مشن میں برلن کے بھرپور سپورٹ کا یقین دلایا۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ، ادارت: گوہر نذیر گیلانی