افغان الیکشن میں دھاندلی ہوئی، کائی ایڈے کا اعتراف
12 اکتوبر 2009واضح رہے کہ ان انتخابات کے غیر حتمی نتائج کے مطابق افغان صدر حامد کرزئی نے دوبارہ صدارت کے لئے مطلوب پچپن فیصد جبکہ ان کے قریبی حریف سابق وزیر خارجہ عبدللہ عبدللہ نے اٹھائیس فیصد ووٹ حاصل کئے تھے۔ اقوام متحدہ کے نمائندے کائی ایڈی نے گزشتہ روز کابل میں ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ صدراتی انتخابات میں واقعتاً دھاندلی ہوئی ہے۔’’میں اس موقع پر صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ بڑے پیمانے پردھاندلی ہوئی ہے، لیکن اس کے صحیح اعداد وشمار ابھی نہیں دئے جاسکتے کہا جارہا ہے کہ تیس فیصد تک دھاندلی ہوئی ہے لیکن اس وقت ایسا کہنا محض ایک افواہ ہے۔‘‘ جس وقت اقوام متحدہ کے نمائندےکائی ایڈی کابل میں صحافیوں کو صورتحال سے متعلق بتارہے تھے ان کے ساتھ نیٹو امریکہ اور جرمنی کے بشمول دیگر مغربی ممالک کے نمائندے بھی موجود تھے۔
افغان صدارتی انتخابات میں دھاندلی سے متعلق باضابطہ تحقیقاتی رپورٹ سے قبل یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا جب ایڈی کے نائب پیٹر گلبریتھ نے ان پر دھاندلی کو چھپانے کے الزامات عائد کئے۔ پیٹر نے انتخابات سے قبل دھاندلی کے پیش نظر افغانستان کے پینسٹھ ہزار میں سے بارہ ہزار پولنگ اسٹیشنز پر ووٹنگ نہ کرانے کی تجویز دی تھی۔ تاہم ایڈی کا موقف تھا ایسا کرنے سے ملک کی اکثریتی پشتون آبادی میں تناؤ پیدا ہونے کا ڈر تھا۔ پیٹر کو ایڈی سے اختلافات کے باعث انکے عہدے سے برطرف کیا جاچکا ہے۔ کائی ایڈی کا اپنے اوپر لگائے جانے والے الزامات کے دفاع میں یہ کہنا تھا۔’’یہ محض میری ذات اور ساکھ پر لگائے گئے ذاتی نوعیت کے الزامات نہیں تھے بلکہ اس قسم کے حملوں سے سارے انتخابی عمل پر منفی اثرات پڑے ہیں۔‘‘
انتخابات سے متعلق تحقیقاتی کمیشن کی ساکھ کو ایک اور دھچکا اس وقت لگا جب آج اس کے واحد افغان رکن مصطفٰی باریکزئی نے غیر ملکیوں کی جانب سے حد سے زیادہ مداخلت کے الزام پر کمیشن سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔
افغان صدر حامد کرزئی نے انتخابات سے متعلق شکایات سننے والے عالمی ادارے کے کمین پر زودیا ہے کہ وہ اگلے ایک دو روز میں حتمی نتائج کا اعلان کردیں۔ کرزئی کے حق میں چوئن فیصد ووٹ پڑنے کا اعلان کرنے والے خودمختار الیکشن کمیشن آئی ای سی کو دھاندلی کی شکایات کے باعث دس فیصد ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا اعلان کرنا پڑا تھا جس کے نتائج جلد متوقع ہیں۔
کابل یونیورسٹی میں قومی ادارہ برائے پالیسی تحقیق کے حامدللہ نورعباد نے کہا: ’’ہمارے کرائے گئے دو عوامی جائزوں سے ثابت ہوا ہے کہ لوگ جمہوری روایات کے حامی ہیں، بالخصوص آزادی اظہار کے۔ یہ افغانستان کے لئے بہت اچھی بات ہے لیکن جمہوریت کا جو حال کیا گیا ہے اس سے تو ظاہر ہے مایوسی تو ہوگی ہی۔‘‘
تاہم رائے عامہ کے جائزوں سے ثابت ہوا ہے کہ افغانستان کی عوام صدر حامد کرزئی کو ہی ذہنی طور پر اگلی مدت کے لئے اپنا صدر تسلیم کرچکے ہیں۔ دوبارہ گنتی کی صورت میں اگر کرزئی کے پچاس فیصد سے کم ووٹ ہوئے تو انہیں اپنے قریب ترین حریف عبدللہ عبدللہ کے ساتھ نئے سرے سے انتخاب لڑنا ہوگا۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عدنان اسحاق