افغانستان کے غلام بھٹہ مزدور
افغانستان کے دارالحکومت کابل کے مضافات میں واقع گاؤں ’دیہہ سبز ‘ میں اینٹوں کے بھٹہ مزدور طلوعِ آفتاب سے سورج ڈوبنے کے بعد دیر تک محنت کی چکی میں پسنے کے باوجود مسلسل قرض کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔
افغانستان کے غلام بھٹہ مزدور
دل آغا اِس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ اپنے خاندان کی ایک فوری ضرورت پوری کرنے کے لیے اُس نے بھٹّے کے مالک سے جو چند ہزار ڈالر کا قرض لیا تھا، اُسے وہ کبھی اتار نہیں پائے گا۔
چھ ماہ میں چار لاکھ بیس ہزار اینٹیں
دیہہ سبز میں قائم تین سو پچاس بھٹوں میں اوسطاﹰ سات لاکھ اینٹیں بنائی جاتی ہیں یعنی ہر بھٹے سے چھ ماہ کی مدت میں تقریباﹰ چار لاکھ بیس ہزار اینٹیں حاصل ہوتی ہیں۔
ستر سالہ بوڑھا بھی کام کرنے پر مجبور
ستر سالہ گل اصغر اور اُس کی ضعیف بیوی بھی اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے کے لیے مجبور ہے۔ وجہ وہی ہے، قرض کی ادائیگی۔
بچیاں اسکول کے بجائے بھٹے پر
وہ کم سن بچیاں جنہیں مزدوری کرنے کے بجائے اسکول جانا چاہیے، تعلیم حاصل کرنے کے بنیادی حق سے محروم بھٹّوں پر کام کر کے اپنے والدین کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔
سالانہ لاکھوں کا منافع
افغانستان میں بھٹہ مزدور انتھک محنت کر کے اپنے مالکان کو سالانہ لاکھوں ڈالر کا منافع دیتے ہیں۔
حکومتی قانون بھی بے بس
حکومتی قانون اِن بھٹہ مزدوروں کی مدد کرنے کے معاملے میں بے بس دکھائی دیتا ہے۔ ایک افغان سرکاری اہلکار کے مطابق بہت سے اہلکار اِس بارے میں بات کرنے سے خوفزدہ ہیں۔
کھیل کا میدان بھی یہی
اِن افغان بچوں کے لیے مزدوری کی جگہ اور کھیل کا میدان یہی بھٹے ہیں۔
انور اللہ کو ستر ہزار روپے کا قرض لوٹانا ہے
دیہہ سبز کا بھٹہ مزدور انور اللہ اور اُس کے والدین اِس بھٹے پر دن رات کام کرنے پر مجبور ہیں کیوں کہ انہوں نے ستّر ہزار روپے کا قرض واپس کرنا ہے۔