1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کی تازہ صورتِ حال کا جائزہ

29 ستمبر 2006

مغربی دفاعی اتحاد Nato نے مشرقی افغانستان میں اپنی فوجی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اِس معاہدے کے تحت افغانستان میں بین الاقوامی سیکیورٹی فورس ISAF میں شامل 12,000 امریکی فوجیوں کو Nato کے زیرِ قیادت دے دیا جائے گا۔ اِس طرح ISAF کو افغانستان بھر میں تقریباً تمام بین الاقوامی opertaions پر کنٹرول حاصل ہو جائے گا، اور اُس کے فوجیوں کی تعداد بھی 30,000 سے زائد کر دی جائے گی۔

https://p.dw.com/p/DYIv
کابل کا ایک منظر
کابل کا ایک منظرتصویر: AP

اِس سمجھوتے کے مطابق Nato کے کمانڈرز کو یہ اختیار مل جائے گا کہ وہ امریکی فوجیوں کو مشرقی علاقوں سے ہٹا کر طالبان والے جنوبی علاقوں میں تعینات کر سکیں، جہاں اِن دنوں برطانوی، ولندوزی اور کینیڈا کے دستے باغیوں کے ساتھ شدید چھڑپوں میں پھنسے ہوئے ہیں، لیکن مشرقی افغانستان میں امریکی فوج کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں اُن پر طالبان باغیوں کے حملوں میں دو سے تین گُنا اضافہ ہوا ہے، جبکہ اِسی قسم کی اطلاعات مغربی حصوں سے بھی موصول ہو رہی ہےں۔

امریکی افواج کے اعلیٰ کمانڈر General James Jones کے مطالبے کے باوجود Nato میں شامل ممالک جنوبی افغانستان میں مذید 2,000 فوجی بھیجنے پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اِسی لئے Nato پر افغانستان میں مذید مﺅثر کردار ادا کرنے پر زور ڈالا جا رہا ہے۔ پولینڈ نے کہا ہے کہ وہ 1,000 فوجیوں کی تعیناتی کا عمل تیز کر دے گا اور جنوبی افغانستان میں اگلے محاز پر لڑنے والے سپاہیوں کی اکثریت بھی ممکنہ طور پر فراہم کرے گا۔ Nato زرائع کے مطابق رومانیہ، کینیڈا، ڈنمارک اور چیک جمہوریہ نے بھی دستوں کی پیشکش کی ہے۔

دریں اثنا، افغان تجزیر نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان سے ملحقہ افغانستان کے سرحدی علاقے میں باغیوں کے بڑھتے ہوئے حملوں کے باعث یہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ حکومتِ پاکستان کا اپنے قبائیلی علاقوں میں طالبان نواز باغیوں کے ساتھ جو معاہدہ ہوا ہے کہیں اُس کا اُلٹا اثر نہ ہو جائے۔ امریکہ کے زیرِ قیادت اتحادی افواج نے کل یہ بیان دیا تھا کہ دو ماہ قبل فائر بندی کے نفاز کے بعد سے شمالی وزیرستان سے ملحقہ افغان علاقوں میں حملے تین گُنا شدید ہو گئے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ستمبر کے اوائل میں حکومتِ پاکستان اور وزیرستان کے قبائلی رہنماﺅں کے درمیان اِس سمجھوتے کو باضابطہ شکل دئے جانے کے باعث طالبان بغاوت کا ایک نیا محاز کُھل گیا ہے، اور اُس علاقے میں مقامی حامیوں کے سائے تلے القاعدہ اور طالبان کی سرگرمیوں کو ایک طرح سے جائز بنا دیا گیا ہے کیونکہ اِس امن معاہدے کے تحت اب اُنھیں حکومتِ پاکستان سے کوئی خطرہ نہیں رہے گا۔

صدرِ پاکستان جنرل پرویز مشرف نے اِس سمجھوتے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ قبائلی سرداروں نے سرحد پار حملے روکنے اور القاعدہ کے ارکان کو علاقہ بدر کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے جو کہ بے انتہا خونریزی کے بعد اب اِس مسئلے کے سیاسی حل کی جانب ایک مثبت قدم ہے۔ جواب میں پاک فوج نے ملک کے قبائلی علاقوں میں اپنی موجودگی کم کردی ہے اور بہت سارے قیدیوں کو رہا کر دیا ہے۔ جبکہ افغان صدر حامد کرزئی، امریکہ اور Nato نے کہا ہے کہ وہ انتظار کریں گے اور دیکھیں گے کہ اِس سمجھوتے کے کیا نتائج سامنے آتے ہیں۔

تجزیر نگاروں کے خیال میں یہ معاہدہ باغیوں کے وعدوں پر انحصار سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور اِسے نافظ کرنے کا بھی کوئی طریقہِ کار وضع نہیں کیا گیا۔ بنیادی طور پر یہ معاملہ پاکستان میں حکومت سازی کے مسائل کا عکاس ہے، جہاں ایک طرف مشرف حکومت ملک میں اسلام پسند سیاسی پارٹیوں کے اثر و رسوخ کو زائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے تو دوسری طرف وہ ملک میں امن و امن قائم رکھنے اور اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لئے اسلامی جماعتوں کے ساتھ اتحاد پر مجبور نظر آ رہی ہے۔ تاہم اِس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان میں فی الحال کوئی بھی ایسی سیاسی جماعت نہیں ہے جو ملک کو انتہا پسندی کی جانب بڑھنے سے روک سکے۔ ایسے میں ایک فوجی جنرل کے زیرِ قیادت حکومت ہی فعال نظر آ رہی ہے۔