1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: چھ طالبان کو سزائے موت دے دی گئی

شادی خان سيف، کابل8 مئی 2016

کابل حکومت نے طالبان کو سخت سبق سکهانے کے اپنے دعوے کو عملی جامه پہناتے ہوئے اتوار کی صبح طالبان کے چھ اہم ملزمان کو پھانسی دے دی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس اقدام سے طالبان کی پرتشدد کارروائیوں میں مزید اضافہ ہوگا۔

https://p.dw.com/p/1IjwZ
Afghanistan Hinrichtung im Gefängnis Pul-e-Tscharchi
تصویر: picture alliance/ZUMA Press/W. Sabawoon

مبصرین کے مطابق افغان حکومت کا یه اقدام اگرچه دہشت گردی کا نشانه بننے والے عوام کے فطری ردعمل کو تسکین پہنچائے گا مگر اسٹریٹیجک نکته نگاه سے یه یقینی طور پر ملک میں مزید خون خرابے کا سبب بن سکتا ہے۔ دارالحکومت کابل میں گزشته ہفتے ایک خونریز حملے کے نتیجے میں چونسٹھ افراد کی ہلاکت اور قریب تین سو کے زخمی ہونے کے بعد صدر محمد اشرف غنی نے پارلیمان کے دونوں ایوانوں کا مشترکه اجلاس بلایا تها، جس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے غیر معمولی غم و غصے کا اظہار کرتے طالبان مخالف نئے اور سخت اقدامات اٹھانے کا عندیہ دیا تها۔ اسی موقع پر غنی نے برسوں سے مختلف جیلوں میں قید ملزمان کی سزا پر عملدرآمد کا اعلان بهی کیا۔ یاد رہے که افغانستان کی مختلف جیلوں میں طالبان اور دیگر باغی گروہوں سے وابسته سینکڑوں افراد قید ہیں۔

نئی کابل حکومت کی جانب سے ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے که دہشت گردی کے مقدمات میں موت کی سزا پانے والوں کو پھانسی دی گئی ہے۔ افغان حکومت کے اس قدم کو ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے تنقید کا نشانه بنایا ہے۔ جنوبی ایشیا کے لیے ایمنسٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر جامین کور نے ایک بیان میں صدر غنی پر زور دیا ہے که پهانسی کے حکم ناموں پر دستخط نه کیے جائیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’ان پهانسیوں سے نه تو کابل حملے کا نشانه بننے والوں کو انصاف مل سکے گا اور نه ہی ملک میں قیام امن کے کوششوں کو کوئی فائده پہنچے گا۔‘‘

Afghanistan Hinrichtung im Gefängnis Pul-e-Tscharchi
نئی کابل حکومت کی جانب سے ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے که دہشت گردی کے مقدمات میں موت کی سزا پانے والوں کو پھانسی دی گئی ہےتصویر: picture alliance/dpa/J. Jalali

تجزیه کار یعقوب خان کے بقول اتوار کو جن چھ ملزمان کو پهانسی دی گئی، ان میں اور ماضی میں اس قسم کی پهانسیوں میں ایک واضح فرق شفافیت کا ہے۔ ان کے بقول ماضی میں کئی مرتبہ ایسا هوا که چهوٹے جرائم حتی کہ بے گناه افراد کو دہشت گردوں کے کهاتے میں ڈال کر ایسی سزائیں دی جا چکی ہیں لیکن حالیه واقعے میں پهانسی کی سزا پانے والے ہائی پروفائل دہشت گردانه حملوں میں ملوث تھے، ’’اس کام سے حکومت مخالف قوتوں پر یه عیاں ہو جائے گا که حکومت ان کے خلاف سخت سے سخت قدم اٹها سکتی ہے اور اس ضمن میں کوئی ابہام موجود نہیں۔‘‘

اس رائے کے برعکس کئی حلقے افغان حکومت کی اس نئی جنگی روش کو روشن اور پر امن مستقبل کا ضامن نہیں سمجهتے۔ افغانستان میں جرمن این جی او فریڈرش ایبرٹ شٹفٹُنگ کے ڈائريکٹر الیکسی یوزوفوو کے بقول ان پهانسیوں نے کم از کم 2015ء میں شروع ہونے والی قیام امن کی کوششوں پر پانی پهیر دیا ہے۔ ان کے مطابق چار فریقی رابطه گروپ سے، جو قیام امن اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی امیدیں وابسته کی گئی تھیں، بدقسمتی سے وه بهی عملی صورت اختیار نہیں کر سکیں۔ الیکسی کے بقول ان سزاوں میں ایک عدالتی پس منظر کے بجائے سیاسی رنگ نمایاں تها اور ان پھانسیوں کے بعد نئی حکومت کی گزشته ایک برس سے جاری قیام امن کی کوششیں بے نتیجه ثابت ہوگئی ہیں۔

طالبان نے اپنے ردعمل میں حکومت کو سنگین نتائج سے خبردار کرتے ہوئے عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں پر زور دیا ہے که وه ان ’’غیر انسانی اور غیر قانونی‘‘ سزاوں کے خلاف آواز اٹهائیں۔