1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: پوست کی کاشت کم، افیون پھر بھی زیادہ

2 ستمبر 2009

افغانستان میں تعمیرِ نو کے سلسلے مں سب سے بڑا مسئلہ وہاں افیون کی پیداوار ہے۔ پوست کی کاشت نہ صرف کاشتکاروں کے لئے بلکہ باغی طالبان کے لئے بھی معقول آمدنی کا ایک بڑا اور اہم ذریعہ ہے۔

https://p.dw.com/p/JNp1
دنیا بھر میں استعمال ہونے والی نوے فیصد ہیروئن افغانستان میں تیار ہوتی ہےتصویر: picture-alliance/ dpa

دنیا بھر میں استعمال ہونے والی نوے فیصد ہیروئن افغانستان میں تیار ہوتی ہے۔ تاہم جیسا کہ اقوامِ متحدہ کے منشیات اور جرائم کے انسداد کے دفتر کی تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے، اب پوست کی کاشت نمایاں طور پر کم ہوتی جا رہی ہے۔

اقوامِ متحدہ کے اِس ادارے کے تازہ اعداد و شمار اور یہ بیان بظاہر تو اُمید افزا ہیں کہ افغانستان میں پوست کی کاشت نمایاں طور پر کم ہو گئی ہے۔ اِس ادارے یعنی یُو این او ڈی سی کی آج کابل میں جاری کی جانے والی رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال کے مقابلے میں اِس سال بائیس فیصد کم پوست کاشت ہوئی۔ پوست وہ پودا ہے، جس سے افیون حاصل ہوتی ہے اور افیون سے ہی بعد میں ہیروئن تیار کی جاتی ہے۔

افغان کابینہ میں منشیات کے انسداد کا شعبہ جنرل خدائی داد کے پاس ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ ملک کے تقریباً دو تہائی صوبوں میں اب مزید کوئی پوست کاشت نہیں کی جا رہی:’’گذشتہ سال پوست سے مکمل طور پر پاک صوبوں کی تعداد اٹھارہ تھی، اِس سال بیس ہو گئی ہے۔‘‘

Bildgalerie Ursachen von Armut: Drogen
افغانستان میں پوست کی کاشت نمایاں طور پر کم ہو گئی ہےتصویر: AP

جنرل خدائی داد کے مطابق منشیات کے خلاف یہ کامیاب پیشرفت غیر ملکی تنظیموں اور افغان حکومت کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ ذرا غور سے دیکھا جائے تو افیون کی پیداوار اُس اعتبار سے کم نہیں ہوئی، جس اعتبار سے پوست کی کاشت ہوئی ہے۔ افیون کی پیداوار میں محض دَس فیصد کمی ہوئی ہے۔ اِس کی وجہ پوست کی کاشت کے وہ نئے طریقے ہیں، جن میں ایک پودے سے اب تک کے مقابلے میں کہیں زیادہ مقدار میں افیون حاصل کی جا سکتی ہے۔

نتیجہ یہ ہے کہ افغانستان بدستور افیون پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اِس طلب کو پورا کرنے کے لئے سالانہ تقریباً سات ہزار ٹن کی ضرورت ہوتی ہے۔ رسد میں نمایاں اضافے کے باوجود قیمتیں قدرے مستحکم جا رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے کے اندازوں کے مطابق افغانستان میں پیدا کی جانے والی افیون کی مالیت چار سو چالیس ملین ڈالر ہے، جو افغانستان کی مجموعی قومی پیداوار کے تقریباً چار فیصد کے برابر ہے۔ گذشتہ برس سات فیصد کے برابر تھی۔

یُو اَین او ڈی سی کے سربراہ انتونیو ماریا کے مطابق طالبان کو اپنی جنگ کے لئے مالی وسائل کا ایک بڑا حصہ پوست کی کاشت سے حاصل ہوتا ہے اور یہ کہ زیادہ مقدار میں پوست کاشت بھی ملک کے جنوب میں ہوتی ہے، جو طالبان کا گڑھ ہے:’’افیون خاص طور پر جنوبی افغانستان کے پانچ صوبوں میں پیدا کی جا رہی ہے، فاراح، ہلمند، قندھار اور اُروزگان وغیرہ میں۔ یہی وہ صوبے ہیں، جہاں باغیوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔‘‘

ان صوبوں میں بین الاقوامی محافظ دستے کے فوجی بھی تعینات ہیں لیکن وہ سال کے اوائل میں پوست کے لہلہاتے کھیتوں کے ساتھ ساتھ گشت کرتے ہیں۔ جنرل مِڈن ڈورپ، جو اگست کے مہینے تک اُروزگان میں ہالینڈ کے یونٹ کے کمانڈر کے فرائض سرانجام دیتے رہے، آئی سیف دستے کے اختیارات کے بارے میں بتاتے ہیں:’’منشیات کا انسداد ہمارے دائرہء اختیار میں نہیں آتا۔ ہم وہاں جرائم کے انسداد کے لئے نہیں بلکہ سلامتی فراہم کرنے کے لئے موجود ہیں۔‘‘

اور یہ وہ سلامتی ہے، جو تب براہِ راست خطرے میں پڑ جاتی ہے، جب پوست کی کاشت سے حاصل ہونے والی آمدنی گردِش میں آتی ہے۔

رپورٹ : امجدعلی

ادارت : کشورمصطفیٰ