افغانستان میں پستے کی پیداوار خطرے میں
20 جولائی 2016افغانستان کی وزارت برائے زراعت کے مطابق پستے کی فصل جولائی کے آخر تک تیار نہیں ہوتی لیکن رواں مہینے کے آغاز پر ہی شدت پسندوں نے پستے کے پودوں پر سے 40 فیصد پھولوں اور خوشوں کو وقت سے پہلے ہی کاٹ دیا ہے۔
افغانستان کے صوبے سمانگن میں شعبہء زراعت کے قائم مقام سربراہ رفیع اللہ روشن زادا نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا،’’ اس ماہ کے آغاز میں لگ بھگ 150 افراد نے حضرت سلطان اور کوہ گوگرد میں پستے کے باغات پر حملہ کیا اور کچے پھولوں کو کاٹ دیا۔‘‘ سکیورٹی افواج نے کئی افراد کو حراست میں لیا لیکن تب تک نقصان ہو چکا تھا۔
روشن زادا کے مطابق، ’’مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے کچے پستوں کو درختوں سے اتار لیا ہے جس کی وجہ سے سے پیداوار میں کمی پیدا ہوئی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اس برس پستے کی مجموعی پیداوارگزشتہ برس کی نسبت نصف ہو سکتی ہے۔ اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق بدخشان سے قندوز تک پستے کے باغات کے ساتھ یہی مسئلہ پیش آرہا ہے۔
افغانستان کے مغربی صوبے بادغیس میں زراعت کے ڈائریکٹر حافظ اللہ بینش نے اے ایف پی کو بتایا،’’ اس صوبے میں پستے کے باغات طالبان کے علاقوں میں ہیں، حکومت کا ان پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔‘‘ حافظ اللہ کے مطابق کچے پستے اچھی قیمت میں نہیں فروخت ہوتے، اگر پستے کے پھول پکنے کے بعد اتارے جائیں تو یہ 525000 امریکی ڈالر تک فروخت کی جاسکتی ہے۔‘‘
بادغیس صوبے میں گورنر کے دفتر کے سربراہ شراف الدین مجیدی کہتے ہیں کہ طالبان اور مقامی مسلح افراد پستے کو کچی حالت میں کاٹنے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔
باغات کے محکمے کے سربراہ محمد امان کا کہنا ہے کہ پستوں کی کٹائی کے قریب حکومت 11 صوبوں میں ان باغات کے قریب جانے پر بھی پابندی عائد کر دیتی ہے لیکن یہ پابندی ان شدت پسندوں کو روکنے کے لیے کافی نہیں ہے جن میں افغانستان کے انتہائی غریب لوگ بھی شامل ہیں۔ شافی نامی ایک مزدور کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اور طاقت ور شخصیات لوگوں کو پستے کی فصل کی کٹائی سے نہ روکیں تو یہ لوگ ان پستوں کو فروخت کر کے ہر روز 15 سے 30 امریکی ڈالر کما سکتے ہیں۔
دوسری جانب محمد امان کی رائے میں بادغیس صوبے میں سات کلو کچا پستہ 400 افغانی میں فروخت ہوتا ہے اور اگر اسی وزن کا تیار شدہ پستہ فروخت کیا جائے تو وہ 1500 سے 2000 افغانی میں بک سکتا ہے۔
چار دہائیوں قبل افغانستان میں ساڑھے چار لاکھ ہیکٹر پر پستے کے باغات ہوا کرتے تھے لیکن اب پستے کے 40 سے 50 فیصد درخت موسمیاتی تبدیلیوں، خشک سالی اور آگ کے لیے استعمال کی جانے والی لکڑی کی ضرورت کے باعث ختم ہوگئے ہیں۔
گزشتہ 12 سالوں سے پستے کے درختوں کی پیدوار میں اضافہ کیا گیا ہےاور اسی عرصے میں 500 سے 1500 ٹن پستے کو درآمد بھی کیا گیا ہے۔ سن 2014 میں پستے کی درآمدات کل 4.2 ملین امریکی ڈالر کی تھیں۔