1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں نوجوان نسل سیاسی قیادت کی خواہشمند

28 اگست 2010

افغانستان میں 18 ستمبر کو ہونے والے دوسرے پارلیمانی انتخابات کی تیاریاں جاری ہیں، جنہیں اس ملک میں طالبان دور کے خاتمے کے بعد وجود میں آنے والی کم عمر جمہوریت کے لیے اگلے بڑے امتحان کا نام دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/OyUe
انتخابی امیدواروں کی تعداد 2500 کے قریب ہےتصویر: AP

ان انتخابات میں ملکی پارلیمان کے ایوان زیریں یا وولیسی جرگہ کے دو سو انچاس ارکان کا چناؤ کیا جائے گا ۔ ان سیٹوں پر انتخاب کے لیے امیدواروں کی تعداد 2500 کے قریب ہے۔ ان پارلیمانی انتخابات کے سلسلے میں اہم بات یہ ہےکہ افغانستان میں بہت ہونہار اور نوجوان مردوں اور خواتین کی ایک ایسی نئی نسل سامنے آ چکی ہے جوکھلم کھلا اس عمومی رائے کو چیلنج کرتی ہے کہ اقتدار اور طاقت کا تعلق لازمی طور پر پگڑی، داڑی اور بزرگی سے ہوتا ہے۔

افغانستان میں سیاست کو بدنامی کی حد تک پارٹی بازی اور جانبداری کی سیاست قرار دیا جاتا ہے۔ پارلیمان عام طور پر ایسے منتخب نمائندوں سے بھری ہوتی ہے، جن کا ماضی یا تو خونریز واقعات یا مشکوک حقائق کا آئینہ دار ہوتا ہے۔

Afghanistan Wahlen Wahlplakat in Kabul
پارلیمانی انتخابات کی تیاریاں جاریتصویر: AP

اس لیے ایسے اکثر سیاستدان اپنے سیاسی رابطوں اور سیاسی حیثیت کو اپنی طاقت اور دولت میں اضافے کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن افغانستان میں طالبان کے اقتدار سے بے دخل کیے جانے کے تقریبا ایک عشرے بعد اب وہاں سیاسی حوالے سے ایک نئی عملیت پسندی دیکھنے میں آرہی ہے۔

اس نئی سیاسی سوچ کے محرک نوجوان نسل کے وہ سب سیاستدان ہیں، جو ملک میں کرپشن اور اقرباء پروری کے ماحول کا خاتمہ چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں طالبان کی طرف دی جانے والی بار بار کی دھمکیوں کو بھی مسلسل نظرانداز کرتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام UNDPکے مطابق افغانستان کی 35 ملین آبادی کا 68 فیصد حصہ پچیس برس سے کم عمر کے شہریوں پر مشتمل ہے۔ اس کے باوجود اس تاثر کو بدلنا ابھی بھی مشکل ثابت ہو رہا ہے کہ قیادت کا حق صرف بزرگ شہریوں کو حاصل ہے۔ اس رجحان میں اب تک جو تبدیلی دیکھنے میں آئی ہےاس کی وجہ بہت سے نوجوان سیاسی امیدوار بنے۔

Afghanistan Wahlen Wahlplakat in Kabul
نوجوان سیاسی امیدواروں میں بہت سی خواتین بھی ہیںتصویر: AP

ان افراد کو علاقائی سطح پر سیاستدانوں کی اگلی صفوں میں آنے کا موقع اس غیر موثر ملکی حکومت کی وجہ سے ملا جو کئی سالوں سے اقتدار میں ہے اور بدعنوان تصور کی جاتی ہے۔ ایسے بہت سے نوجوان سیاسی امیدوار، جن میں مردوں کے ساتھ ساتھ بہت سی خواتین بھی شامل ہیں، واضح طور پر یہ کہتے ہیں کہ وہ ان باریش بزرگ شخصیات کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں، جوگزشتہ تین عشروں سے بھی زائد عرصے میں کسی نہ کسی طور پر اقتدار میں تو رہے مگر افغانستان سے جنگ اور شہریوں کے مصائب کا خاتمہ نہ کر سکے۔

نئی طرز کے ان افغان پارلیمانی انتخابی امیدواروں میں پہلی مرتبہ ٹیلی ویژن کے شعبے کی شخصیات، کامیڈی آرٹسٹ، اداکارائیں اور معروف کھلاڑی بھی شامل ہیں۔ ان میں سے متعدد امیدواروں کو موقع پرست بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ لیکن مبصرین کو یقین ہے کہ ایسی شخصیات میں سے کچھ یقینی طور پر ایوان پارلیمان تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گی اور ان کی کامیابی کی واحد وجہ ان کی عوامی مقبولیت ہو گی ۔

ان سیاسی امیدواروں نے کئی ایسی نوجوان شخصیات بھی شامل ہیں، جو افغانستان کو مستقبل میں ایک بہتر اور فعال جمہوری ریاست بنانے کے لیا اپنا کردار ادا کرنے کی خواہش مند ہیں۔ ایسی اکثر شخصیات کا خیال ہے کہ افغانستان نے عشروں پر محیط داخلی عدم استحکام اور خانہ جنگی کے باوجود ایک ریاست کے طور پر انہیں جو کچھ دیا ہے وہ بہت زیادہ ہے اس لیے اب یہ نوجوان سیاست دان افغانستان کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے کے ارادے کے ساتھ اپنے ذمے ریاست کا قرض اتارنا چاہتے ہیں۔

رپورٹ :عصمت جبیں

ادارت :عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں