1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں قبائلی سرداروں کے مکان خواتین کی جیلیں ہیں

عابد حسین
11 اکتوبر 2016

افغانستان میں دیکھا گیا ہے کہ قید کی روایتی سزا کا انداز ابھی بھی حکومتی اہلکاروں کی چشم پوشی کے باعث قائم ہے۔ قبائلی سرداروں کے مکانات پر قید سزا بھگتنے والے عورتوں کو انتہائی نا مساعد حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2R6y3
Afghanistan UNAMA Symbolbild
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/J. Rezayee

یہ امر واقعہ ہے کہ افغانستان میں ہزاروں خواتین کو اُن کے جرائم کے تناظر میں سزائیں مروجہ قانونی نظام کو نظر انداز کرتے ہوئے مقامی کونسل یا قصبات و دیہات کے کسی سردار نے تجویز کی تھیں۔ کابل حکومت دوردراز کے علاقوں میں ملکی عدالتی نظام نافذ کرنے کی کوشش ضرور کر رہی ہے لیکن ابھی کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ اسی طرح خواتین کو بنیادی حقوق سے محرومی کا بھی سامنا ہے۔

پکتیکا کو افغانستان کے غریب اور قدامت پسند صوبوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کی سرحدیں پاکستان کے ساتھ بھی جڑی ہیں۔ اس صوبے میں خواتین کے لیے ابھی تک کوئی جیل حکومتی نگرانی میں قائم نہیں کی گئی ہے۔ دوسری جانب یہ بھی اہم ہے کہ افغانستان کی تمام جیلیں گنجائش سے ز یادہ قیدیوں کے ساتھ بھری ہوئی ہیں اور ان حالات پر انسانی حقوق کے ملکی کارکن اور غیر ملکی ادارے ناقدانہ بیانات دینے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

Afghanistan Afghaninnen bewerben sich als Stewardessen
افغانستان میں نوجوان خواتین کو مشکل حالات کا سامنا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/J. Lai

خواتین کو دی جانے والی سزاؤں کی ایک مثال جنوب مشرقی صوبے پکتیکا کی فوزیہ کی ہے۔ اس کو گھر سے فرار اور زنا کے جرم میں اٹھارہ ماہ کی سزائے قید سنائی گئی۔ اُس کے لیے زیادہ پریشانی کی بات یہ ثابت ہوئی کہ اُسے اپنی قید کی مدت کسی حکومتی جیل کی بجائے ایک قبائلی سردار کے مکان پر بغیر تنخواہ کے بطور ایک نوکرانی کے گزارنا پڑ رہی ہے۔

ایک قبائلی سردار کے گھر پر گزرنے والی قید کے حوالے سے فوزیہ نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ پکتیکا صوبے کے دارالحکومت شرنہ میں قید کے اٹھارہ مہینوں کا کچھ عرصہ وہ ایک غلام کی طرح گزار  چکی ہے اور اُس کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اُس کو شدید بیماری کی وجہ سے مختصر عرصے کے لیے علاج کی خاطر عارضی رہائی دی گئی ہے۔ فوزنہ نے روئٹرز کو اُس قبائلی سردار کا نام بتانے سے گریز کیا، جس کے گھر پر وہ اپنی قید بھگت کر رہی ہے۔

Symbolbild Afghanistan Graffiti
افغان معاشرہ پر خواتین کے حوالے سے قدامت پسندانہ رجحان غالب ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Hossaini

اُس نے اپنا اصل نام بھی مخفی رکھا اور عرفیت کا ہی حوالہ دے کر نیوز ایجنسی کے نمائندے سے گفتگو کی۔ اُس نے انتہائی درد سے کہا کہ جو کچھ اُسے برداشت کرنا پڑا ہے، خدا کسی اور عورت کو ایسے حالات سے دوچار نہ کرے۔

رواں برس اپریل میں امریکی وزارت خارجہ کی انسانی حقوق سے متعلق ایک رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ افغانستان میں باقاعدہ قانونی نظام کو دیہی علاقوں میں اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور قبائلی افراد اپنی منشا و مرضی سے فیصلے کرتے ہیں۔ بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق افغانستان میں پچانوے فیصد لڑکیاں اور پچاس فیصد خواتین کو اخلاقی جرائم کے تحت سزاؤں کا سامنا ہے۔ ان میں گھر سے بھاگ جانے یا کسی مرد کے ساتھ ہم بستری خاص طور پر اہم ہیں۔

 یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ افغان صوبے پکتیکا کو گزشتہ پندرہ برسوں میں اربوں ڈالر کی بین الاقوامی امداد میں سے محض ایک قلیل حصہ دیا گیا ہے۔