1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں شیعہ مسلمانوں پر حملے، داعش کیا چاہتی ہے؟

صائمہ حیدر
27 اکتوبر 2017

اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان کے شہر کابل میں شیعہ مسلک کے مسلمانوں کی مسجد میں گزشتہ ہفتے ہونے والا قتل عام ملک میں شیعہ اقلیت کے غیر محفوظ ہونے کی دلیل اور داعش کی جانب سے فرقہ واریت پھیلانے کی کوشش ہے۔

https://p.dw.com/p/2mdTp
Afghanistan Kabul Anschlag Moschee
تصویر: Reuters/O.Sobhani

اے ایف پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں جہادی گروپ داعش کے شیعہ مسلمانوں پر دن بدن بڑھتے حملوں سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ شدت پسند گروہ ملک میں فرقہ وارانہ تشدد کی لہر پیدا کرنا چاہتا ہے۔

گزشتہ ہفتے کابل میں امام زمان مسجد میں خود کش حملے کے شکار اور عینی شاہدین نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے حملہ آور کو مسجد میں داخل ہوتے دیکھا لیکن وہاں سیکیورٹی کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ حملے سے متاثرہ ان افراد کے مطابق حکومت کی جانب سے شیعہ مساجد کی حفاظت کا وعدہ کیا گیا تھا۔ شیعہ مساجد میں نمازیوں پر ہونے والے ان خود کش حملوں کے تازہ ترین واقعات میں درجنوں خواتین، مرد اور بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔ گزشتہ برس بھی ایسے بم حملوں میں دو سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

امام زمان مسجد میں ہوئے خود کش حملے میں شدید زخمی ہونے والے علی گل نے اے ایف پی کو بتایا،’’ اس دن کسی کی جامہ تلاشی نہیں لی گئی۔ محرم کے مہینے میں چیکنگ سخت تھی لیکن اس کے بعد کوئی سکیورٹی چیکنگ نہیں کی گئی۔‘‘

Afghanistan Karte Sakhi Schrein in Kabul
تصویر: Getty Images/AFP/M. Kiran

ابھی تک افغانستان فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات سے بڑی حد تک محفوظ رہا ہے۔ لیکن گزشتہ ایک برس میں شیعہ مسلمانوں پر حملوں میں جس تیزی سے جہادی گروہ داعش کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے، ماہرین کو خدشہ ہے کہ کہیں یہاں بھی فرقہ واریت کا عفریت اپنے قدم نہ جما لے۔

سنی اکثریتی ملک افغانستان میں شیعہ مسلمانوں کی تعداد قریب تین ملین ہے۔ رواں برس اسلامی مہینے محرم کے شروع ہونے سے پہلے افغان حکومت نے چار سو شہریوں کو شیعہ مساجد کی حفاظت کے لیے مسلح کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا تھا لیکن یہ حملے روکے نہ جا سکے۔

گزشتہ جمعے کے حملے میں زخمی ہونے والے حاجی رمضان نے اے ایف پی کو بتایا،’’ یہ سو فیصد حکومت کی غلطی ہے کہ وہ ہماری حفاظت کرنے میں ناکام رہی ہے۔‘‘

شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے محمد اکبری کا کہنا تھا کہ پہلی اکتوبر کو عاشورہ محرم کے بعد سے شیعہ مساجد کو فراہم کی جانے والی سکیورٹی بہت کم رہ گئی ہے اور کابل کی امام زمان مسجد میں گزشتہ ہفتے ہوئے خود کش حملے کو غفلت سے بیدار ہونے کی گھنٹی سمجھا جانا چاہیے۔

امام زمان مسجد سے ملحق شیعہ علاقے میں کمیونٹی کے ایک بزرگ فرد ابراہیم کا کہنا تھا کہ عسکریت پسند افغانستان میں شیعہ اور سنی مسلک کے مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوں گے۔