1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں سلامتی کی بگڑتی صورت حال اور صدارتی انتخابات

3 اگست 2009

افغانستان میں صدارتی انتخابات کے انعقاد کا وقت قریب آ رہا ہے جبکہ وہاں سلامتی کی صورت حال بھی ابتر ہو جا رہی ہے۔ اگست کے پہلے ہی دو روز میں وہاں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے نو فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/J2rN
تصویر: DW

ساتھ ہی اسلام آباد اور کابل حکومتوں کے درمیان دہشت گردی کے خلاف ناکافی کوششوں کے الزامات کا تبادلہ بھی جاری ہے۔

افغانستان میں امن و امان کی مسلسل خراب ہوتی صورت حال سے اندازہ ہوتا ہے کہ شدت پسند 20 اگست کے صدارتی انتخابات کو بہر صورت ناکام بنانا چاہتے ہیں۔

رواں ماہ کے پہلے دو روز میں پے درپے نیٹو فوجیوں کی ہلاکتیں اور تیسرے روز ہرات میں ایک بم دھماکہ! افغانستان میں اگست کا آغاز اسی طرح ہوا۔ پیر کو مغربی شہر ہرات میں ایک بم دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 12افراد ہلاک ہو ئے۔

حکام کا کہنا ہے کہ شدت پسند مقامی پولیس کے سربراہ کو نشانہ بناناچاہتے تھے۔ تاہم ہلاک ہونے والے تمام افراد راہگیر تھے۔

دوسری جانب نیٹو دستے افغان انتخابات کے کامیاب انعقادکو ممکن بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ اس تناظر میں وہاں گزشتہ کچھ عرصے میں اضافی فوجی بھی تعینات کئے گئے ہیں۔ پیر کو اپنے ایک بیان میں نیٹو کے نئے سربراہ آندرس راسموسن نے افغانستان جنگ کو نیٹو کی ترجیح قرار دیتے ہوئے اعتدال پسند طالبان سے مذاکرات کا عندیہ بھی دیا ہے۔

Pakistan Innenminister Rehman Malik Pressekonferenz in Islamabad
پاکستان میں گرفتار کئے گئے 90 فیصد دہشت گردوں کا تعلق افغانستان سے ہے، پاکستانی وزیر داخلہ، رحمٰن ملکتصویر: Abdul Sabooh

تاہم افغان رکن پارلیمان داؤد سلطان زئی کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات اُسی صورت کامیاب ہوسکتے ہیں جب ان سے اخلاقی اختیار اور اخلاقی جرأت کے ساتھ بات کی جائے:

"اس حیثیت میں طالبان سے مذاکرات افغانستان کی وہی حکومت کر سکتی ہے، جو ایسے اختیار کو یقینی بنا سکتی ہو۔"

طالبان پر قابو پانے میں مذاکرات کی حکمت عملی کس حد تک کامیاب ہو سکتی ہے، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم انہیں طاقت سے دبانے میں انتہائی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ افغان حکومت اس کا ذمے دار پاکستان کو بھی ٹھہراتی ہے۔

اُدھر اسلام آباد حکومت کا موقف ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی کے تربیتی کیمپوں سے آنے والے شدت پسند پاکستان میں نقص امن پیدا کرتے ہیں۔ تاہم افغانستان نے پاکستانی وزیر داخلہ رحمٰن ملک کا وہ حالیہ دعویٰ مسترد کر دیا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ افغان صدر حامد کرزئی نے ملک میں دہشت گردی کے تربیتی کیمپوں کی موجودگی تسلیم کی ہے۔

رحمٰن ملک نے ایک پاکستانی ٹیلی ویژن سے گفتگو میں کہا تھا کہ حامد کرزئی نے گزشتہ ماہ ایک اجلاس میں افغانستان میں دہشت گردی کے تربیتی کیمپوں کی موجودگی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے سیکیورٹی حکام کو ان کے خ‍اتمے کے لئے ہدایات جاری کی تھیں۔ تاہم افغانستان کے وزیرداخلہ حنیف اتمر نے اپنے پاکستانی ہم منصب کے اس بیان کو بے بنیاد اور حقائق سے منافی قرار دیا۔

ان کا کہنا ہے کہ کابل حکومت کے پاس اس بات کے واضح ثبوت ہیں کہ افغانستان اور پاکستان کے علاوہ وسطی ایشیا کی متعدد ریاستوں سے القاعدہ کے دہشت گرد سرحد پار سے اپنی سرگرمیاں چلا رہے ہیں۔

رپورٹ: ندیم گل

ادارت: امجد علی