افغانستان میں زیادہ فوج مسئلے کا حل نہیں
27 مئی 2009اِن اداروں نے تین سو صفحات پر مشتمل اپنا تازہ ترین جائزہ منگل چھبیس مئی کو برلن میں جاری کیا۔ امن پر تحقیق کے ماہرین نے اپنے اِس سالانہ جائزے میں اِس سوال پر بات کی ہے کہ جنگیں کیسے ختم کی جا سکتی ہیں۔ اِس سلسلے میں اُنہوں نے سب سے پہلے افغانستان کی مثال کو سامنے رکھا ہے۔
اُن کا تجزیہ یہ ہے کہ وہاں امن و امان کی خراب صورتِ حال محض اصل مسئلے یعنی سیاسی ارتقا میں ناکامیوں اور ناکافی ریاستی ڈھانچوں کی ایک علامت ہے۔ ڈوئیزبُرگ یونیورسٹی میں ’’ادارہ برائے ترقی و امن‘‘ سے وابستہ ژوخن ہپلر کے خیال میں زیادہ فوج اِس مسئلے کا حل نہیں ہے:’’ہمیں ایسے عملے اور ایسی پالیسیوں کی ضرورت ہے، جو بالآخر افغانستان میں سماجی سطح پر ایک ایسا ریاستی ڈھانچہ تشکیل دینے میں معاون ثابت ہوں، جو اب تک ناپید ہے۔ ہم بین الاقوامی دستوں کی مدد سے جزوی طور پر ایک ایسی ریاست کا دفاع کر رہے ہیں، جو ملک کے بیشتر حصوں میں وجود ہی نہیں رکھتی اور جسے بدعنوانی، جنگجو سرداروں کی حمایت یا استحصال کی وجہ سے ملک کے بیشتر حصوں میں ایک مصیبت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔‘‘
ہپلر ایک افغان گاؤں کی اُس بیوہ کی مثال دیتے ہیں، جس کے ایک رشتے دار نے اُس کی زمین ہتھیا لی تھی۔ متعلقہ جج نے وہ زمین اُس رشتے دار کو دے دی کیونکہ اُس کے پاس جج کو دینے کے لئے زیادہ رشوت تھی، بجائے اُس بیوہ کے، جو خود بھی فاقے کر رہی تھی، اور اُس کے بچے بھی۔ ہپلر نے کہا کہ اِن حالات میں ریاست پر اعتماد بڑھتا نہیں بلکہ ایک خلا پیدا ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں:’’یہی وہ سیاسی اور سماجی خلا ہوتا ہے، جسے پھر باغی مثلاً طالبان آ کر پُر کرتے ہیں۔ اِن باغیوں کی زیادہ اہمیت کی وجہ ہی یہ خلا ہوتا ہے۔ صرف فوجی وسائل کی مدد لی جائے تو کچھ مہلت تو مل سکتی ہے لیکن خلا پُر نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اگر ہم اِس طرح کے تنازعات کو درحقیقت ختم کرنا چاہتے ہیں تو پھر پہلے اِس خلا کو ختم کرنا ہو گا۔‘‘
تاہم آج کل بین الاقوامی برادری افغانستان میں بنیادی سماجی اور ریاستی ڈھانچوں کی تشکیل کی بجائے امریکی صدر باراک اوباما کی تقلید میں فوجی دَستوں میں اضافے پر تکیہ کئے ہوئے ہے۔ ہپلر کہتے ہیں کہ زیادہ فوجی بھی تبھی سود مند ثابت ہوں گے، جب وہ ایک سیاسی حکمتِ عملی کے فُقدان کا متبادل بننے کی بجائے ریاستی ڈھانچوں کی تعمیر میں معاون ثابت ہوں گے۔
اُن کے خیال میں بین الاقوامی برادری کے دباؤ کے باعث تشکیل پانے والی افغان سیکیورٹی فورسز بھی مسئلے کا حل نہیں ہیں۔ ہمسایہ ملک پاکستان میں ساڑھے نو لاکھ مسلح سپاہی موجود ہیں لیکن استحکام پھر بھی نہیں ہے۔ امن پر تحقیق کے اِن ماہرین کا کہنا ہے کہ خطے میں دیگر تمام سیاسی اہداف کے مقابلے میں پاکستان کے استحکام کو اولین ترجیح دی جانی چاہیے۔